Loading
بچے قوم کا سرمایہ ہیں۔ ملک کے مستقبل کا دار و مدار بچوں پر ہی ہے لیکن نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں بچوں کی بھاری اکثریت کے بارے میں کسی نے کچھ سوچا ہی نہیں ہے۔ اِس کا ذمے دار معاشرہ ہے اور حکومت بھی۔ سچ پوچھیے تو یہ مجرمانہ فعل ہے۔ اِن رُلتے ہوئے بدقسمت بچوں کو آپ نے بھی دیکھا ہوگا۔ ان نونہالوں کا کوئی والی وارث نہیں ہے، یہ بیچارے قسمت کے مارے بے گھر اور بے در ہیں۔ یہ اپنے جسم و جاں کے رشتے کو قائم رکھنے کے لیے طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔ ان کی خاصی بڑی تعداد سڑکوں اور کچرا کُنڈیوں سے کچرا جمع کرنے کے غلیظ کام میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ گویا کچرا کنڈیاں ہی ان کی بقا کا ذریعہ ہیں۔جوں جوں شہری آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے ساتھ ہی ساتھ کچرے کی مقدار بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے، جو ان بچوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔ کچرا اٹھانے والے بچوں کی سب سے بڑی وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت ہے۔ پاپی پیٹ کو بھرنے کے لیے انسان کو وہ کچھ کرنا پڑتا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔کچرے کی ری سائیکلنگ کے لیے کوئی معقول بندوبست نہ ہونے کے نتیجے میں ایک بے ضابطہ طریقہ کار نے جنم لے لیا ہے۔ پانچ سال کی عمر کے معصوم بچے کچرے کے تھیلے اٹھائے جگہ جگہ پھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ کچرے کے ڈھیر سے ایسی چیزیں ڈھونڈتے دکھائی دیتے ہیں جن کی مرمت اور ری سائیکلنگ ممکن ہو یا پھر اُن کو دوبارہ بیچا جاسکے جس میں کاغذ، کارڈ بورڈ، بوتلیں، ٹوٹے ہوئے شیشے، چھری کانٹے، پلاسٹک، لکڑی اور دھاتی اسکریپ شامل ہیں۔ وہ اپنا جمع کیا ہوا سامان کباڑیوں کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں جس سے انھیں روزانہ 200 سے 300 روپے کی آمدنی ہوجاتی ہے۔ ری سائیکل ہونے والی اشیاء کو مقامی کباڑیے کو بیچ دیا جاتا ہے جو کہ سامان کی صفائی اور اس کی چھانٹی کے بعد اُسے کباڑ خانوں کے مالکان اور فیکٹریوں کو بیچ دیتے ہیں، اگرچہ کچرا اٹھانے والے بچوں کے بارے میں کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، تاہم اُن کی ایک بڑی تعداد اِس کام میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کا اب تک کا واحد چائلڈ لیبر سروے 1996 میں کیا گیا تھا جس سے معلوم ہوا تھا کہ ملک میں 3.3 ملین بچے چائلڈ لیبر میں شامل ہیں۔2023 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں ایک بہت بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جن میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 36.47 ملین، پندرہ سال سے کم بچوں کی تعداد 97.53 ملین جب کہ پندرہ سال سے انتیس سال تک کے افراد کی تعداد 62.58 ملین ہے۔بھیانک حقیقت یہ ہے کہ ان میں 36 فیصد پانچ سال سے سولہ سال تک کی عمر کے بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔ اِن میں سے 79 فیصد بچوں نے اسکول کی کبھی شکل بھی نہیں دیکھی اور 21 فیصد اسکول سے بھاگ گئے۔2023 کی آئی ایل او رپورٹ کے مطابق کچرا اٹھانے والے 69 فیصد بچے نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے 88 فیصد بچوں نے پانچ سے دس سال کی عمر میں کچرا اٹھانا شروع کردیا تھا۔کچرا اٹھانا جان جوکھوں کا کام ہے،کیونکہ اِس میں جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہونا سیدھی سی بات ہے۔ کچرا اٹھانے والے بچوں کو بہت سے انتہائی خطرناک مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ مثلاً ٹوٹے ہوئے شیشوں اور مختلف دھاتوں کے ٹکڑے جمع کرنا اور استعمال شدہ سرنجیں اکٹھا کرنا جن کی وجہ سے وہ کَٹ، چوٹ اور طرح طرح کے انفیکشنز اور موذی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سانس کے ذریعے دھُول مٹی، آلودگی اور زہریلا دھواں اندر لینے سے سانس کی بیماریاں جنم لیتی ہیں جن میں دمہ، برونکائٹس اور پھیپھڑوں کی دیگر بیماریاں شامل ہیں۔ کچرا اٹھانے والے بچوں میں ناقص صفائی اور حفظان صحت کی وجہ سے ٹی بی، اسہال اور ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ناقص اور ناکافی خوراک کی وجہ سے یہ بچے اکثر غذائیت کی کمی اور بھوک کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جسمانی زیادتی اور اپنے ستم زدہ حالات کی نذر ہوکر یہ معصوم بچے صدمہ اور تناؤ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے معاشرے سے کَٹ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات سے محروم ہو کر ذہنی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ کچرا اٹھانے والے بچے مجبور ہوکر اپنا معصوم سا بچپن کھو دیتے ہیں اور تعلیم سے محروم رہ کر ننھی سی عمر میں معاشی ذمے داریوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ تعلیم کی محرومی کی وجہ سے اکثر یہ بچے غربت کے جال میں پھنس جاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ بُری صحبت میں پڑجاتے ہیں اور اپنی سماجی اور معاشی حیثیت کو بہتر بنانے اور ایک خوشگوار اور بھرپور زندگی گزارنے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔ علم و ہنر کی کمی کی وجہ سے یہ بیچارے نہ تو اپنی زندگیاں سنوارنے کے لیے کچھ کرسکتے ہیں اور نہ ہی ملک و قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔نہایت افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان میں اب تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں۔ اُن میں سے کسی کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی ہے کہ اِس سلگتے ہوئے سنگین انسانی مسئلے کی جانب توجہ دے حالانکہ یہ مسئلہ فوری توجہ طلب ہے۔ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ بچے تعلیم اور مثبت ماحول کی کمی کی وجہ سے بری عادتوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ہمارے دین میں تو جانوروں کے بھی حقوق ہیں تو یہ غریب تو پھر انسان ہیں۔ ہم کیسے مسلمان ہیں؟ ہمارا دین تو ہمیں انسانیت، مجبور، کمزور اور لاچار لوگوں کی مدد کا درس دیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا قانونی ڈھانچہ اِس قابل نہیں ہے کہ ایسے بچوں کو بحال کرکے انھیں تحفظ فراہم کرسکے۔ ہم ملک میں مصروفِ کار فلاحی اداروں اور دینی مدارس کی توجہ اِس جانب دلانا چاہتے ہیں اور اُن سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ آگے بڑھیں اور اس معاملے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں، تاکہ ایسے بچے ضایع ہونے سے بچ سکیں اور ان میں اچھائی اور برائی کی تمیز کا شعور بیدار ہو، تاکہ وہ ایک بامقصد زندگی گزار سکیں۔عوام النّاس بالخصوص صاحبِ ثروت مخیر حضرات سے خصوصی گزارش ہے کہ وہ اپنی آمدنی سے معقول حصہ نکال کر اِس کارِ خیر میں شرکت کریں۔ ہمیں امید ہے کہ دینِ اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والی اِس ریاست کے حکمران اور شہری ناموسِ اسلام کی خاطر اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل