Monday, March 17, 2025
 

الزامی تکرار کب تک؟

 



سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر جو موجودہ پارلیمنٹ کے رکن بھی ہیں نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ملک میں دوبارہ شفاف الیکشن ہونے چاہئیں۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اورمحمود خان اچکزئی بھی الزام لگا رہے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ میں فارم 47 کے ذریعے کامیاب قرار دیے گئے ارکان کی اکثریت ہے۔ سندھ میں جی ڈی اے بھی سندھ کی موجودہ حکومت کو فارم 47 کی پیداوار قرار دیتے ہیں۔ پنجاب میں اپنے امیدواروں کو پی ٹی آئی فارم45 کے ذریعے اور مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کو فارم47 کی حکومت قرار دیتی ہے ۔ بلوچستان کے انتخابات کو بی این پی کے سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل جعلی قرار دیتے ہیں جب کہ وہ اپنے حلقے سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے مگر ان کا بھی کہنا ہے کہ بلوچستان میں جیتنے والوں کو ناکام قرار دے کر ہارنے والوں کو جتوایا گیا ہے۔ اختر مینگل نے رکن قومی اسمبلی کا حلف بھی اٹھایا تھا مگر بعد میں وہ مستعفی ہو کر دبئی چلے گئے تھے اور ان کا استعفیٰ کہیں لٹکا ہوا ہے جو اب تک منظور نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی صرف کے پی کے انتخابات کو جعلی قرار نہیں دیتی کیونکہ وہاں سے اس کے امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے جہاں دو بار پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور 8 فروری کے الیکشن میں کے پی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو جتنی زیادہ نشستیں ملیں یا دلوائی گئیں اس پر بھی پی ٹی آئی مطمئن نہیں ہے جب کہ کے پی میں پی ٹی آئی کو دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل ہے۔ کے پی میں پی ٹی آئی کی بھاری اکثریت سے کامیابی پر جے یو آئی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بھی شدید تحفظات ہیں اور کے پی میں مولانا فضل الرحمن اور میاں نواز شریف جیسی اہم شخصیات ہاریں اور پی ٹی آئی میں نئے آنے والے جیتے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہاں بھی پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کی کامیابی فارم47 کی مرہون منت ہے جن پر پی ٹی آئی مطمئن ہے مگر پی ٹی آئی سے نکالے گئے شیر افضل مروت کہتے ہیں کہ کے پی میں خفیہ سمجھوتے کے تحت پی ٹی آئی کے ہارے ہوئے بعض رہنماؤں کو فارم47 کے ذریعے جتوایا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے تمام رہنما موجودہ قومی اسمبلی کو جعلی قرار دیتے ہیں مگر وہ خود قومی اسمبلی میں موجود بھی ہیں اور تمام مراعات بھی حاصل کر رہے ہیں۔ عمر ایوب قومی اسمبلی کو جعلی بھی کہتے ہیں اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں جب کہ حکومت نے پی ٹی آئی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی سمیت قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی بھی دے رکھی ہے، جن کے ذریعے پی ٹی آئی رہنما تمام سرکاری مراعات وصول کر رہے ہیں اور ارکان پارلیمنٹ کی جو تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں ان کے بڑھائے جانے میں پی ٹی آئی کے تمام ارکان شامل تھے۔ اس وقت کسی کو خیال نہیں آیا تھا کہ پارلیمنٹ جعلی ہے تو اس کے ذریعے تنخواہیں کیوں بڑھائی گئیں اور جعلی پارلیمنٹ کے ارکان کے طور پر تمام مراعات لی جا رہی ہیں۔ تمام اجلاسوں میں شرکت بھی کی جاتی ہے۔ پی ٹی آئی اور اس کے ایک ایک نشست کے حامی بھی پارلیمنٹ کو جعلی قرار دیتے نہیں تھکتے مگر قومی اسمبلی سے مستعفی بھی نہیں ہو رہے۔ رانا ثنااللہ نے بھی کہا ہے کہ ہم بھی 2018 کی قومی اسمبلی کو آر ٹی ایس کی پیداوار قرار دیتے تھے اور قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نہ صرف آخر تک موجود رہے بلکہ تینوں پارٹیوں نے اسی قومی اسمبلی میں بانی پی ٹی آئی کو ہٹا کر میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب کرایا تھا۔ملک کے ہر الیکشن میں ہارنے والے دھاندلی کے الزام لگاتے آ رہے ہیں اور اپنی شکست کوئی تسلیم نہیں کرتا مگر مبینہ جعلی یا دھاندلی کی پیداوار پارلیمنٹ سے چمٹا بھی رہتا ہے، مراعات بھی لیتا ہے ،اور اپنی تنخواہیں بڑھانے کے لیے بھاگ دوڑ بھی کرتا ہے۔ 2013 میں پی ٹی آئی نے چار حلقوں اور 35 پنکچرزکے الزامات لگائے تھے اور طویل دھرنا بھی دیا تھا۔ قومی اسمبلی سے استعفوں کا ڈرامہ رچا کر بعد میں استعفے ہی واپس نہیں لیے تھے بلکہ اپنی غیر حاضری کی تنخواہیں بھی وصول کی تھیں۔ہارنے والے الزامات بھی لگاتے ہیں مگر منصفانہ الیکشن کے انعقاد کے لیے قانون سازی بھی نہیں کرتے اور فائدے سب اٹھا رہے ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل