Loading
’’میں اپنے والدین کا سب سے بڑا بیٹا ہوں۔ 2017 میں ایک معمولی بخار نے مجھے دو دن تک بے ہوشی کی حالت میں رکھا۔ میرے گھر والوں نے مجھے قریبی شہر تربت کے اسپتال پہنچایا، جہاں ڈاکٹروں نے مجھ میں خون کی شدید کمی کی تشخیص کی اور بتایا کہ میں تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا ہوں۔ اس سے پہلے میرے دو چھوٹے بھائی بھی اسی بیماری کی وجہ سے دنیا سے جا چکے تھے۔ یہ خبر میرے والدین کے لیے کسی بڑے صدمے سے کم نہ تھی۔‘‘ یہ الفاظ 33 سالہ ظریف ہلاکو کے ہیں، جو ضلع گوادر کے سب ڈویژن پسنی کے دیہی علاقے ’’بازواجہ کلانچ‘‘ کے رہائشی ہیں۔ وہ خشک ہونٹوں اور تھکی ہوئی نظروں سے اپنا حال سناتے ہوئے کہتے ہیں: ’’تربت سے واپسی کے بعد علاقے کے لوگوں نے کہا کہ مجھے ’دلوئی‘ نامی بیماری لاحق ہوئی ہے، جس کا علاج صرف داغنے سے ممکن ہے۔ ان کے مشورے پر میرے والد نے گرم لوہے کی کیل سے میری پسلیوں کے نیچے جسم کو داغ دیا۔ اس سے پہلے میرے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ بھی یہی کیا گیا تھا، لیکن وہ بچ نہ سکے۔‘‘ ’’دلوئی‘‘ کیا ہے؟ مکران کے دورافتادہ دیہی علاقوں میں ’’دلوئی‘‘ نامی بیماری کا ذکر صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ جب کسی بچے کا جسم زرد پڑ جائے، اس کا پیٹ پھولنے لگے اور بائیں پسلیوں کے نیچے شدید درد ہو، تو مقامی لوگ اسے ’’دلوئی‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے علاج کے لیے روایتی طریقوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ کھجور کے کانٹوں پر دم کیا جاتا ہے، انہیں بینگن میں لگاکر گھر کی دیوار پر آئینے کے سامنے لٹکا دیا جاتا ہے۔ بچے کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ روزانہ صبح اٹھ کر 15 سے 20 منٹ تک اس بینگن کو غور سے دیکھے۔ ایک ہفتے یا دس دن بعد، جب بینگن مکمل سوکھ جاتا ہے، تو والدین کو یقین دلایا جاتا ہے کہ بچے کی ’’دلوئی‘‘ ختم ہوگئی۔ آر ایچ سی پسنی میں بطور اسسٹنٹ ہیلتھ آفیسر خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر عبدالرؤف بلوچ کہتے ہیں: ’’میڈیکل سائنس میں دلوئی نامی کوئی بیماری نہیں ہے۔ یہ دراصل تھیلیسیمیا ہے، جسے دیہی علاقوں میں معلومات کی کمی کی وجہ سے ’دلوئی‘ کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے آج بھی ان علاقوں میں تھیلیسیمیا کا علاج روایتی طریقوں سے کیا جاتا ہے، جیسے بچوں کے جسم کو گرم لوہے سے داغنا، جو انتہائی خطرناک اور تکلیف دہ ہے۔‘‘ خطرناک روایات ’’قندیل تھیلیسیمیا کیئر سینٹر پنجگور‘‘ کے چیئرمین خدائے نظر بلوچ بتاتے ہیں:’’پنجگور کے کچھ علاقوں میں والدین تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کے جسم کو داغنے سے پہلے خود کو داغتے ہیں تاکہ بچے کا خوف کم ہو۔‘‘ یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ دیہی علاقوں میں تھیلیسیمیا جیسے مہلک مرض کو ’دلوئی‘ سمجھ کر خطرناک رسومات جاری ہیں۔ تھیلیسیمیا کی بیماری تھیلیسیمیا کا پہلا کیس 1925 میں امریکا میں رپورٹ ہوا۔ امریکی ماہرِاطفال ڈاکٹر تھامس بینٹن کولی نے اطالوی نژاد بچوں میں خون کی کمی کی ایک خاص قسم دریافت کی، جس میں ہڈیوں کی غیرمعمولی نشوونما، تلی کا بڑھ جانا اور شدید خون کی کمی جیسی علامات شامل تھیں۔ بعد میں 1927 میں ڈاکٹر پرل لی نے اٹلی میں تھیلیسیمیا کی خصوصیات بیان کیں۔ یہ بیماری دو اقسام کی ہوتی ہے: تھیلیسیمیا مائنر اور تھیلیسیمیا میجر۔ اگر والدین کے دونوں خراب جینز بچے میں منتقل ہوجائیں تو تھیلیسیمیا میجر ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایک خراب جین منتقل ہو تو تھیلیسیمیا مائنر کہلاتا ہے، جسے کیریئر کہا جاتا ہے۔ اس بیماری میں سرخ خلیات میں ہیموگلوبن غیرمعمولی مقدار میں بنتا ہے، جو جینز کی خرابی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہیموگلوبن دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے: ’’ہیم‘‘ جو آئرن کا مرکب ہے، اور ’’گلوبن‘‘ جو پروٹین سے بنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں تھیلیسیمیا کی صورت حال ہر سال 8 مئی کو تھیلیسیمیا کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں تقریباً 30 کروڑ افراد تھیلیسیمیا سے متاثر ہیں، جن میں سے 10 کروڑ کو ہر ماہ ایک یا دو بار خون چڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قبرص، یونان اور اٹلی جیسے ممالک میں شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کی جانچ لازمی ہے، جس سے اس بیماری کے پھیلاؤ میں کمی آئی ہے۔ تھیلیسیمیا فیڈریشن آف پاکستان کے مطابق، پاکستان میں تھیلیسیمیا کیریئرز کی تعداد 1.1 کروڑ سے زائد ہے، جب کہ تھیلیسیمیا میجر کے مریض بچوں کی تعداد 27 لاکھ سے زیادہ ہے۔ ملک کی 6 فی صد آبادی اس مرض میں مبتلا ہے اور ہر سال 5 سے 7 ہزار نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔ پاکستانی محقق ڈاکٹر عنایت الرحمان کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر سال 15 ہزار بچے بی ٹا تھیلیسیمیا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، جس کی بڑی وجہ خاندانی شادیاں ہیں۔ 2022 کی ایک تحقیق کے مطابق، پاکستان میں 98 لاکھ افراد تھیلیسیمیا سے متاثر ہیں، جو کُل آبادی کا 11 فی صد بنتا ہے۔ پاکستان میں تھیلیسیمیا کی روک تھام اور قانون سازی پاکستان میں تھیلیسیمیا کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی باتیں تو ہوتی ہیں، لیکن اس مرض پر قابو پانے کے لیے حکومتی سطح پر کوئی جامع منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ جولائی 2016 میں سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر خان نے شادی سے پہلے خون کے ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کا بل پیش کیا، لیکن دس سال گزرنے کے باوجود اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ پاکستان بیت المال نے راولپنڈی میں تھیلیسیمیا ٹیسٹ کی مہم شروع کی اور مریضوں کی رجسٹریشن کا عمل بھی آغاز کیا، لیکن اسے سنجیدگی سے نہ لیا گیا۔ کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود نے پشاور میں تھیلیسیمیا ٹیسٹ کے بغیر ڈومیسائل کے اجرا پر پابندی لگانے کی کوشش کی، لیکن قانونی اقدامات نہ ہو سکے۔ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ابتدائی اسکریننگ کے لیے قانون سازی ہوئی، لیکن عمل درآمد نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر عبدالرؤف بلوچ کہتے ہیں: ’’قانون سازی ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو اس خاموش قاتل سے بچایا جا سکے۔ خاندانی شادیوں کی وجہ سے موروثی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، خاص طور پر بلوچستان میں۔ اگر شادی سے پہلے تھیلیسیمیا اور ایچ آئی وی جیسے ٹیسٹ لازمی ہوں تو بہت سی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں لوگ اسے معیوب سمجھتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ لوگ خود ٹیسٹ کروائیں۔‘‘ بلوچستان میں تھیلیسیمیا کی صورت حال بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا اور پس ماندہ صوبہ ہے، جہاں دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات محدود ہیں۔ ناکافی انفرااسٹرکچر، طبی عملے کی کمی، کم فنڈنگ اور ادویات کی قلت کے باعث لوگ علاج کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ بلوچستان میں تھیلیسیمیا کے کیسز میں تشویش ناک اضافہ ہورہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، بلوچ آبادی میں اس کی شرح 9.1 فی صد اور پشتون علاقوں میں 5.6 فی صد ہے۔ مکران ڈویژن میں بھی یہ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی کے مطابق، بلوچستان میں ہر سال تقریباً ایک ہزار بچے تھیلیسیمیا کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی ہدایت پر سنس فاؤنڈیشن کے تعاون سے علاج کے مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سیکریٹری صحت مجیب الرحمٰن پانیزئی نے لاہور میں سنس فاؤنڈیشن کا دورہ کیا، جہاں ڈاکٹر عدنان گیلانی نے بتایا کہ ان کا ادارہ سالانہ 7 ہزار سے زائد مریضوں کو مفت علاج فراہم کرتا ہے۔ مکران میں تھیلیسیمیا سے ہلاکتیں مستری آفتاب، جو پسنی سے تعلق رکھتے ہیں، کہتے ہیں:’’میری اکلوتی بیٹی رحمتی 16 سال تک تھیلیسیمیا سے لڑتی رہی، لیکن آخر کار وہ چل بسی ۔ اس کے علاج کے لیے میں نے زیورات، جمع پونجی اور گھر تک بیچ دیا، مگر اسے بچا نہ سکا۔‘‘ غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق، تین سال میں پسنی میں 10 بچے اس مرض سے جان گنوا چکے ہیں۔ راشد یاد کا 8 سالہ بیٹا بھی گذشتہ سال تھیلیسیمیا سے انتقال کر گیا۔ وہ کہتے ہیں:’’میں نے اپنے بیٹے کے علاج کے دوران بہت سے بچوں کو خون کی بوتل دیکھ کر مسکراتے دیکھا، کیوںکہ وہ سمجھتے تھے کہ اب وہ کچھ دن اور زندہ رہ سکیں گے۔‘‘ مکران میں خون کے عطیات کے مراکز مکران میں تین خون عطیات کے مراکز کام کر رہے ہیں: کیچ تھیلیسیمیا کیئر سینٹر (453 رجسٹرڈ بچے)، قندیل تھیلیسیمیا کیئر سینٹر پنجگور (280 بچے)، اور ہوپ فاؤنڈیشن کیئر سینٹر گوادر (230 بچے)۔ یہ ادارے بغیر سرکاری مدد کے خون کے کیمپ لگاتے اور مفت خون فراہم کرتے ہیں۔ کیچ سینٹر کے چیئرمین ارشاد عارف کہتے ہیں ’’روزانہ 40 سے زائد بچوں کو خون کی ضرورت ہوتی ہے اور اس خون کا بندوبست ہمیں روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی ڈونر کے ذریعے کرانا پڑتا ہے، خاص کر رمضان کے مہینے میں تازہ خون کی عطیات میں کمی آجاتی ہے یا یوں کہیں کہ نہ ہونے کے برابر ہوجاتا ہے، اِس دوران تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کو خون دینا مشکل ہوجاتا ہے۔‘‘ ارشاد عارف بتاتے ہیں،’’گذشتہ 7-8 سال میں ضلع کیچ میں 50 سے زائد بچے خون کی کمی سے مر چکے ہیں۔‘‘ قندیل تھیلیسیمیا کیئر سینٹر پنجگور کے چیئرمین خدائے نظر بلوچ کا کہنا ہے ’’ہمارے کیئرسینٹر میں عطیاتی خون نہ ہونے کی وجہ سے ہم بعض دفعہ تمام بچوں کو خون لگوانے کے لیے بذریعہ ٹرانسپورٹ کوئٹہ بھی لے جاتے ہیں، یہاں تک کہ بچے پشاور کے پمزاسپتال بھی گئے ہیں، تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کے والدین کس مپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں۔‘‘ ہوپ فاؤنڈیشن گوادر کے سربراہ انورعیسیٰ کہتے ہیں:’’والدین کی آنکھیں سوال کرتی ہیں کہ کیا ان کا بچہ آج خون ملنے کے بعد گھر جا سکے گا؟ یہ درد صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جو اس سے گزرتے ہیں۔‘‘
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل