Wednesday, March 19, 2025
 

بدقسمتی سے پاکستان میں کال سینٹر انڈسٹری کے حوالے سے تربیت کا قفدان ہے

 



 محمد صدیق خالد نے جامعہ پنجاب سے بزنس میں پوسٹ گریجویشن کی۔ گزشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے سے کال سینٹر انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ آغاز پی ٹی سی ایل کے کال سینٹر سے ہوا بعد میں مختلف موبائل کمپنیوں سے وابستہ رہے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ اور امریکہ کی ہیلتھ انڈسٹری سے بھی منسلک رہے۔ ایک آن لائن ٹرانسپورٹ کمپنی کے جنوبی افریقی ریجن کو بھی مشاورت فراہم کی۔ سوال: ایک عام آدمی کے لیے کال سینٹر سے کیا مراد ہے؟ جواب: کال سینٹر ایک ایسا سیٹ اپ ہے جہاں کلائنٹس ، کسٹمرز اور کنزیومرز کو کالز کی جاتی ہیں یا کلائنٹ ،کسٹمر یا کنزیومر کال کرتا ہے اور ایک تیسری نوعیت کا کال سینٹر ہوتا ہے جس کو آٹومیٹڈ کال سینٹر کہتے ہیں۔ جہاں پر جب کوئی کال کرتا ہے تو اس کی بات کسی انسان سے نہیں ہوتی بلکہ وہاں مشین کی ریکارڈنگ پڑی ہوتی ہے۔ جس میں مختلف آپشنز دستیاب ہوتے ہیں۔ان کو منتخب کرنے سے انہیں مختلف نوعیت کی خدمات ملتی ہیں۔ تین طرح کے کال سینٹرز ہوتے ہیں ایک آؤ ٹ باؤنڈ، اِ ن باؤنڈ اور آ ٹو میٹڈ۔ سوال: کال سینٹر کیسے کام کرتا ہے؟ جواب: کال سینٹر ایسے ہی کام کرتا ہے جیسے ایک روٹین میں آفس کام کرتا ہے۔ کال سینٹر نمائندے کو ایک کمپیوٹر،ہیڈ فون اور انٹرنیٹ درکار ہوتا ہے۔ کال سینٹر کے بیک اینڈ پر جو پراسیس چل رہا ہوتا ہے اس میں ایک سافٹ وئیر ہوتا ہے جس کے ذریعے کالز کی جاتی ہیں یا کالز لی جاتی ہیں، سافٹ وئیرز کو کنٹرول کرنے کے لیے سافٹ و ئیر انجینئرز ہوتے ہیں۔آئی ٹی سے وابستہ لوگ بھی کال سینٹر انڈسڑی کا حصہ ہوتے ہیں۔ کال سینٹر چونکہ ایک بزنس ہے تو پھر فنانس کے لوگ بھی وہاں ہوتے ہیں۔ سوال: کال سینٹر میں کس نوعیت کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں؟ جواب: کال سینٹر مختلف کام کرتے ہیں۔ سروس کال سینٹر، جہاں صارفین کو خدمات کی فراہمی دی جاتی ہے۔ سیلز سینٹر،جہاں سیلز ہوتی ہے۔ جو سروس کال سینٹر ز ہیں وہ بڑی کمپنیوں نے بنائے ہیں جو کہ انہوں نے اپنے کسٹمرز کی تسلی اور ان کو برقرار رکھنے کے لیے بنائے ہیں۔دورِجدید میںکوئی پروڈکٹ فروخت کرنا مشکل نہیں ہے مگر کسی پروڈکٹ کی فروخت کے بعدکسٹمررکو برقرار رکھنا مشکل ہے، ایسے میں کال سینٹر بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے خاص کر پاکستان میں۔ بڑی بڑی کمپنیاں کسٹمر سروس کال سینٹر کو چلارہی ہیں ۔ سوال: کیا کال سینٹرز کی کوئی درجہ بندی ہوتی ہے؟ جواب: جی ،کال سینٹرزکی کیٹیگریز ہوتی ہیں۔ پاکستان میں لوکل اور انٹرنیشنل کال سینٹرز دونوں ہی کام کررہے ہوتے ہیں۔ لوکل سے مراد وہ کال سینڑ ہے جو بزنس بھی پاکستان میں کررہا ہے اور اس کا صارف بھی پاکستان میں ہی ہے۔ ایک ایسا کال سینٹر جو کام تو پاکستان میں کررہا ہو مگر اس کا بزنس کسی اور ملک میں ہو، تو یہ انٹرنیشنل ہوگا۔ سوال: کال سینٹرز پاکستان کے کن شہروں میں کام کر رہے ہیں؟ جواب: پاکستان میں بڑے شہر ، لاہور، اسلام آباد اور کراچی، کال سینٹر انڈسٹری کا مرکز ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی ہیں مگر زیادہ تر یہ ان شہروں میں ہیں جہاں کاروبار اورٹیکنالوجی کی دستیابی زیادہ ہے۔ سوال: کیا پاکستان میں کال سینٹر بنانے کے لیے حکومتی اجازت درکار ہوتی ہے؟ جواب: جی ، بالکل اجازت درکار ہوتی ہے۔پنجاب سافٹ وئیر ایکسپورٹ بورڈ سے رجسٹریشن درکار ہوتی ہے، این ٹی این، پروپرائیٹر شپ یا پارٹنر شپ ہے تو ڈاکومینٹ چاہیئے،جتنے بھی بورڈ آف ڈائریکٹرز شامل ہیں،ان کی معلومات کے ساتھ فارم فِل کر کے دیا جاتا ہے۔اس کے بعد آفس وزٹ کر کے وہاں رجسٹریشن کروا سکتے ہیں۔ سوال : اگرکوئی کال سینٹر کسی ایک صوبے سے رجسٹرڈ ہے اور وہاںسے باہر کام کرنا چاہتا ہے تو کیا کوئی نیا اجازت نامہ درکا رہو گا؟ جواب: اس کے لیے الگ سے اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ایک ہی اجاز ت چاہیے کیونکہ آئی ٹی اور سافٹ وئیر کی انڈسٹری اسی ایک ادارے کے تحت کام کررہی ہیں۔ سوال: کس قسم کے کاروبار ہیں جو کال سینٹر استعمال کر رہے ہیں؟ جواب: مختلف کاروباری ادارے ہیں جو یہ چلاتے ہیں۔ سب سے پہلے پاکستان میں لوکل کال سینٹرزکی جتنی سیلولر کمپنینز ہیں،انہوں نے یہ تصور متعارف کروایا دوہزار کی ابتداء میں، اگر انٹرنیشنل کال سینٹرز مختلف پروڈکٹس سیل کرتے ہیں۔ اب توکپڑوں، فوڈ،ٹریولنگ کے کاروبار میں بھی کال سینٹرز ہیں،حکومتی اداروں میں بھی کال سینٹرز ہیں جہاں لوگ مختلف طرح کی شکایات کا اندراج کروا سکتے ہیں۔ سوال: کیا کال سینٹر انڈسٹری ایک تیزی سے فروغ پاتی انڈسٹری ہے؟ جواب: یہ تیزی سے فروغ پاتی انڈسٹری ہے۔ اس میں سالانہ تیس سے چالیس فیصد بڑھوتری ہے۔ اگر چند سال پہلے کی بات کی جائے تو پاکستان میں اس انڈسٹری کا سالانہ ریونیو 60 ملین ڈالر کا تھا۔ سوال: کیا کوئی ایسا ملک ہے جہاں یہ انڈسٹری ملکی معیشت میں بہت کردار ادا کررہی ہو جواب: عالمی سطح پراس وقت دنیا میںکال سینٹر کاگڑھ فلپائن ہے۔ انہوں نے اس کے ذریعے تیس بلین ڈالرز سے زائد کا ریونیو کمایا ہے۔ سوال : کیا اس سیکٹر میں جاب کا مستقبل شاندار ہے؟ جواب: یہ ایک Career Oriented Job ہے۔ یہ ایک پورا بزنس ہے۔ جس میں ہر طرح کا شعبہ شامل ہے۔ اس میں ایچ آر، فنانس، ایڈمن ہے،اس میں صرف وہی فرد نہیں جو کال لے رہا ہے یا کال ڈائل کررہا ہے۔اس میں پورا آفس شامل ہوتا ہے۔ اب اس میں ڈیٹا سائنس کا اضافہ جدت لانے کے لیے کیا جارہا ہے۔لوکل کال سینٹر میں کام کرنے کے لیے کم ازکم تعلیمی معیار گریجویشن ہے۔ سوال: آپ نے اپنی گفتگو میں ڈیٹا سائنس کا ذکر کیا۔ یہ ڈیٹا کیسے اکٹھے کیا جاتا ہے؟ جواب: جب ایک کال کسی ایجنٹ کے پاس آتی ہے، اور وہ اس سے بات کر کے اس کو ختم کرتا ہے تو وہ ایک کوڈ انٹر کرتا ہے کہ یہ کال کس سے متعلقہ تھی۔ وہ کوڈ رپورٹنگ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایک ماہ کے بعد ہمیں دیکھنا ہے کہ کس پروڈکٹ کے متعلقہ سب سے زیادہ انفارمیشن یا شکایت کی کالز آ ئیں تو اس کو دیکھتے ہوئے وہ شکایت کو کم یا اپنی مستقبل کی مصنوعات کو بہتر کر سکتے ہیں۔ ڈیٹا سائنس ایک مزید بہتر ٹیکنالوجی ہے جو ریسرچ کے لیے استعمال ہورہی ہے۔لیکن اگر کسی کے پاس وہ کوڈنگ کا نظام بہتر نہیں ہے تو ڈیٹا سائنس اس کو بہتر کردیتی ہے وہ ایسے کہ صارف اور کال سینٹر کے نمائندے کے درمیان جو بات چیت ہوتی ہے اس میں سے وہ کی ورڈز(Key Words) نکال لیتا ہے اور ان کی ورڈز کی بنیاد پر رپورٹنگ فراہم کر سکتا ہے۔ سوال: اگر کوئی نوجوان کال سینٹر کو جوائن کرنا چاہے تو کیا ایسے ادارے موجود ہیں جہاں اس کو بنیادی تربیت مل جائے اور وہ کال سینٹر کو جوائن کر لے؟ جواب: بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے تربیت کا فقدان ہے۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جہاں پر آپ کو کال سینٹر کی تربیت مل سکے۔ جب آپ کمپنی کو جوائن کر تے ہیں تو اِن ہاؤس (In House) تربیت ہی ملتی ہے جو کہ کمپنی کے اہلکار دیتے ہیں۔ اس کمپنی سے متعلقہ معلومات اور تربیت فراہم کرتے ہیں۔ سوال: اِن ہاؤس تربیت میں کیا کچھ سکھایا جاتا ہے؟ جواب: اگر ایک اچھا کال سینٹر ہو گا تو بنیادی تربیت کا دورانیہ ایک ہفتہ ہو گا۔ اس میں ہر ملازم کو کسٹمر سروس یا سیلز کی تربیت دی جاتی ہے۔ ایک ہفتے کے بعد اس کا ٹیسٹ ہوتا ہے ، اس کو پاس کرنے کے بعد وہ پروڈکٹ نالج کی تربیت حاصل کرتا ہے۔ اب یہ پروڈکٹ کی بنیاد پر اس کی تربیت منحصر ہے کہ وہ پروڈکٹ کتنی وسیع ہے۔ یہ ایک ہفتے سے مہینوں پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ پروڈکٹ نالج کی تربیت کے بعد مرحلہ آتا ہے ماک کالز کا۔ ٹرینز بطور کسٹمر کال کرتا ہے اور ٹرینی بطور کسٹمر سروس نمائندہ یا سیلز ایجنٹ کے طور پر ایکٹ کرتا ہے۔ اس مرحلے میں اس کی تربیت کو چیک کیا جاتا ہے۔ اگر پاس ہو تو پھر ٹرینی کوپروڈکشن فلور بھیج دیا جاتاہے۔ وہاں پھرجس پوزیشن کے لیے وہ تربیت لے رہا ہوتا ہے،اس کو متعلقہ تجربہ کاراہلکار کے ساتھ بٹھایا جاتا ہے اس عمل کو Shadowing کہا جاتا ہے۔ کچھ دن وہاں گزارتا ہے اورپھر اس کو ایک باقاعدہ ورک اسٹیشن دیا جاتا ہے اور وہ کا م کا آغازکرتا ہے۔ سوال : کال سینٹر ز میں کام کرنے والے افراد میں صنفی تناسب کیا ہے؟ جواب: اس سیکٹر میں اگرچہ مرد اور خواتین دونوں ہی کام کرتے ہیں مگر مردوں کی شرح زیادہ ہے کیونکہ کال سینٹرز رات کے وقت کام کرتے ہیں۔ سوال: کیا کال سینٹر میں کام کرنے والے جزوقتی جاب کے لیے آتے ہیں؟ جواب: اس بات کا انحصار اس کے اہداف اور ارادوں پر ہے کچھ طلباء اپنی پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے یااگر کسی کی تعلیم محض ایف اے یا بی اے ہے اور وہ مضبوط معاشی پس منظر سے نہیں ہے تو پھر جاب لگنے کے بعد وہ کام کرتا ہی رہتا ہے بہتر معاشی پس منظر کے حامل افراد وقت کے ساتھ ساتھ ترقی پاتے رہیں اور منیجیریل (Managerial) پوزیشن پر آجائیں تو وہ بھی طویل عرصہ تک کام کرتے رہتے ہیں۔کچھ پروفیشنل افراد ایسے بھی ہیں جو کال سینٹر ز میں اپنی ملازمت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں مثلاً ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں وہ بھی بہتر معاوضے کی وجہ سے کام کر رہے ہیں کیونکہ ہسپتال میں انہیں کم تنخواہ ملتی ہے۔ سوال: اس وقت کتنے کال سینٹرز پاکستا ن میں کام کررہے ہیں؟ جواب: کال سینٹرز پر نظر رکھنے والے ایک ادارے کے تازہ ترین اعداد و شمارکے مطابق پاکستان میںا یک ہزار سے زائد کال سینٹرز کا م کر رہے ہیں۔ ان میں سے 97% انفرادی ملکیت میں کام کررہے ہیں۔ جبکہ صرف 3% بڑے ادارے یا برینڈ چلا رہے ہیں۔ پنجاب میں سب سے زیادہ کال سینٹرز ہیں جن کی تعداد 687 ہے ، سندھ میں 236 ہیں جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں ان کی تعداد 72 ہے۔ سوال: کیا کال سینٹرز ا پنی خدمات کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی استعمال کرتے ہیں؟ جواب: جی،کئی کال سینٹرزمختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پرموجود ہیں۔ اگر اس حوالے سے اعدادو شمار کو دیکھا جائے توایک سو پانچ کال سینٹرز لنکڈاِن پر ہیں، ایک سو ستر کے فیس بک پیجز ہیں۔ ایک سو کال سینٹرز انسٹا گرام پر متحرک ہیں، باون کے ٹوئٹر ہینڈلز ہیں، دس کے قریب ٹک ٹاک پر موجود ہیں، پچیس کے یوٹیوب چینلز ہیں، لگ بھگ چا ر سو کے قریب کال سینٹرز کی اپنی ویب سائٹس ہیں۔ جبکہ ساڑھے چھ سو کے لگ بھگ کال سینٹرز کی اپنی کوئی ویب سائٹ نہیں ہے۔ سوال : کیا یہ درست ہے کہ سنگل اونر کال سینٹر زیادہ دیر تک مارکیٹ میں کام نہیں کر پاتے؟ جواب: جی، مشاہدے میں یہی آیا ہے کہ ان کے کام کا دورانیہ دو سے اڑھا ئی سال کے درمیان ہوتا ہے۔ ا س کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان میں اکثر کال سینٹرز ایسے لوگوں نے بنائے ہوتے ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ کسی کال سینٹر میں جاب کی ہوتی ہے۔ تھوڑا عرصہ کا م کر کے وہ سوچتے ہیں کہ یہ تو آسان کام ہے میں اپنا کال سینٹر کیوں نہ کھول لوں۔ وہ تھوڑی سے سرمایہ کاری کر کے اپنا سیٹ اپ کھول لیتے ہیں۔ نہ انہوں نے اس بزنس کی کوئی فزیبلٹی کی ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں اس چیزکا علم ہوتا ہے کہ بزنس کی کیا ضروریات ہوتی ہیںاور یہی وجہ ہے کہ ان کی لائف پھر کم ہوتی ہے۔ اس کو ایک بزنس کی طرح چلانا ہوتا ہے جس کی ان کے پاس مہارت اور تجربہ نہیں۔ دوسرا ناتجربہ کاری اور جلد پیسے کمانے کے چکرمیں وہ پھر بے ضابطگیوں کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور کامیاب نہیں ہو پاتے۔ سوال: ایک کال سینٹر کے لیے کسٹمرزکیسے ڈھونڈے جاتے ہیں؟ جواب: اس میں زیادہ تر جو ٹیکنیک استعمال کی جاتی ہے وہ ہے ریفرل سسٹم ۔ اگر کوئی پروڈکٹ کسی کلائنٹ نے خرید لی ہے اور وہ مطمئن ہوا ہے تو اس نے پروڈکٹ خریدی ہے تو اسی سے کہا جاتا ہے کہ وہ مزید کوئی ریفرنس دے اپنے فیملی، فرینڈز کے سرکل میں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمزاستعمال کیے جاتے ہیں ان پر اشتہارات دیے جاتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا فارم ہوتا ہے جس کو بھرا جاتا ہے اگر کلائنٹ اس میں دلچسپی لے۔ تو پھر وہ انفارمیشن سوشل میڈیا اس بزنس کو فراہم کرتا ہے کہ آپ نے جو سٹکر وغیر ہ لگایا ہوا تھا اس کو آج اتنے افراد نے فِل کیا ہے تو پھر ان افراد سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ سوال: کال سینٹر میں اگر کوئی بے ضابطگی پائی جائے تو اس کو حل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ جواب: ہر کال سینٹر میں ایک کوالٹی کوکنٹرول کرنیکا ایک میکنزم ہوتا ہے۔جب کوئی شکایت آتی ہے توپھر وہ اپنے مروجہ طریقہ کار اور معیا رکے مطابق اس کال کو چیک کرتے ہیں۔ انہوں نے تنخواہ کے نظام کو بھی کوالٹی سے منسلک کیا ہوتا ہے۔ اگر معیاری کام نہ ہورہا ہو تو وہ پھر تنخواہ سے کٹوتی کرتے ہیں۔ اگر موبائل کمپنیوں کے کال سینٹرکی بات کی جائے تو انہیں پی ٹی اے دیکھتی ہے۔ اگر کسی صارف کو موبائل کمپنی سے شکایت ہے تو پہلے وہ کمپنی میں شکایت درج کرواتا ہے پھر اگر وہ مطمئن نہ ہوتو پی ٹی اے جاتا ہے، بعض اوقات وہ براہ راست بھی پی ٹی اے جا سکتا ہے۔ اگر بزنس کال سینٹر ہے تو اس کے لیے کنزیومر کورٹ کا فورم موجود ہے جہاں کوئی صارف اپنی شکایت درج کروا سکتا ہے۔ سوال: کیا کال سینٹر کے پاس موجود ڈیٹا کے غلط استعمال کے خدشات ہیں؟ جواب: اس کے امکانات موجود ہیں۔ وہ ایسے کہ ڈیٹا اس طرح غلط استعمال ہوتا ہے کہ سافٹ وئیز استعمال ہوتے ہیں اور سافٹ وئیرز بعض اوقات ہیک ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی حساس نوعیت کا کال سینٹر ہے تو وہاں فراڈ ڈیپارٹمینٹ لازمی ہوتا ہے۔ فراڈ ڈیپارٹمینٹ کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ چیزوں پر نظر رکھے اور اس نے الرٹ لگائے ہوتے ہیں، جہاں انہیں کوئی خطرہ نظر آتا ہے وہ فوراً اپنا کا م شروع کر دیتے ہیں۔ سوال: کال سینٹرز میں جو سافٹ وئیرز استعمال ہوتے ہیں ، کیا وہ مقامی طور پر تیار کردہ ہیں یا انہیں باہر سے درآمد کیا جاتا ہے؟ جواب: زیادہ تر لوکل ہیں۔ اگرانٹرنیشنل کال سینٹر کی ڈیمانڈ ہے کہ انہی کا سافٹ وئیر استعمال کریں تو پھر ان کا سافٹ وئیر یہاں مقامی طور پر استعمال بھی نہیں ہورہا ہو گا۔ اس کے لیے ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے ریمورٹ ایکسس۔ یعنی یہاں بیٹھ کر جو ہم سسٹم تک رسائی لیتے ہیں وہ سسٹم فزیکلی کسی دوسرے ملک میں پڑا ہوتا ہے، ہم اس کو یوزر نیم اور پاس ورڈدے کراستعمال کرتے ہیں۔ سوال: کال سینٹر سیٹ اپ میںآئی ٹی کا بنیادی رول ہے۔ نوجوان کس طرح کی تعلیم حاصل کریں کہ وہ اس میں آ جائیں؟ جواب: اس انڈسٹری میں آئی ٹی نیٹ ورکنگ کی تعلیم کام آسکتی ہے۔ کیونکہ کال سینٹر میں کئی سسٹمزشامل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بڑا کا ل سینٹر ہے اور اس میں تین، چار سو سسٹمز ہیں تو وہ آپس میں مربوط ہیں اور پھر وہ ایک مین سرورسے ملے ہوتے ہیں تو یہ ساری کنیکٹوٹی نیٹ ورکنگ والے کرتے ہیں۔ کال سینٹر میں پھر سافٹ وئیر کا استعمال ہوتا ہے تو اگر کوئی سافٹ وئیر ڈیویلپمینٹ سیکھتا ہے اور اس میں ٹیلی کمیونیکیشن میں مہارت لیتا ہے توپھر وہ کال سینٹر میں جا ب کر سکتا ہے۔ سوال: آج کل اے آئی کا زمانہ ہے اور اس نے بہت سے شعبہ جات کو متاثرکیا ہے۔کیا کا ل سینٹرز میں بھی اے آئی سے استفادہ کیا جارہا ہے؟ جواب: اے آئی نے کال سینٹر ز میں بھی اپنی موجودگی کو ثابت کیا ہے۔ اب یہ ہورہا ہے کہ آئی وی آر زیادہ تر اے آئی کے ذریعے سے ہور ہا ہے۔کئی بینکس نے اپنے کال سینٹرز میںآئی وی آر کے لیے اے آئی سے ہی مدد لے رہے ہیں۔ اگر کسی صارف نے اپنے ڈیبٹ کارڈ کی ایکٹیویشن کروانی ہے اور وہ ہیلپ لائن پر کال کرتا ہے تو اس کی بات کسی فرد سے نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک آٹومیٹڈ وائس ریسپانس ہے۔ n

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل