Loading
سندھ ہائیکورٹ نے محکمہ تعلیم کے سپرنٹنڈنٹ کے تبادلے کے خلاف درخواست مسترد کر دی۔ ہائیکورٹ میں محکمہ تعلیم کے سپرنٹنڈنٹ کے تبادلے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف دیا کہ درخواست گزار ترقی حاصل کرکے گورنمنٹ پریمیئر کالج میں بطور سپرنٹنڈنٹ تعینات ہوا تھا۔ کالج پرنسپل نے بغیر شوکاز جاری کیے درخواست گزار کی خدمات ڈائریکٹر کالجز کو واپس کر دیں۔ درخواست گزار 17 گریڈ کا افسر ہے، کالج پرنسپل کے پاس تبادلے کا اختیار نہیں۔ کالج انتظامیہ کے وکیل نے مؤقف دیا کہ درخواست گزار کالج انتظامیہ کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ درخواست گزار پہلے بھی مسلسل دو ماہ ڈیوٹی سے غیر حاضر رہا تھا۔ درخواست گزار دوسرے کالج میں بھی 113 دن تک غیر حاضر رہا جس کی شکایت ڈائریکٹر کالجز کو کی گئی۔ عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ خدمات واپس کرنے کے بعد درخواست گزار نے ڈائریکٹر کالجز میں جوائننگ دی؟ وکیل درخواست گزار نے عدالتی استفسار کا نفی میں جواب دیا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک برس سے درخواست گزار ملازمت سے غیر حاضر ہے اور محکمہ تعلیم نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ سرکاری وکیل نے مؤقف دیا کہ درخواست گزار نے عدالت سے رجوع کر لیا تھا اس لیے کارروائی نہیں کی گئی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ کوئی حکمِ امتناع موجود نہیں تھا، محکمہ تعلیم قانون کے مطابق کارروائی کر سکتا تھا۔ سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ کالج سربراہ نے سنگین بدانتظامی کے الزامات کے تحت درخواست گزار کی خدمات واپس کیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ محکمہ تعلیم نے درخواست گزار کے ساتھ غیر ضروری طور پر نرم رویہ رکھا ہے۔ درخواست گزار تقرری کے بعد سے ہی اپنی مرضی کے مطابق ملازمت کرتا رہا۔ عدالت محکمہ تعلیم میں ایسی صورتحال کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ عدالت نے تبادلے کے خلاف درخواست مسترد کر دی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل