Wednesday, April 16, 2025
 

گروپ کیپٹن سیسل چوہدری۔۔۔ عظمت کا عظیم مینار

 



2000 سے پہلے کی نسل نے اپنی درسی کتابوں میں ایک ایسا نام ضرور پڑھا ہوگا، جس پر نہ صرف مسیحی کمیونٹی بلکہ پورا پاکستان فخر کرتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کچھ نام ہمیشہ بہادری، عزم اور بے لوث خدمت کی علامت کے طور پر زندہ رہیں گے۔ ان ہی میں سے ایک نام گروپ کیپٹن (ر) سیسل چوہدری کا ہے۔ جو ایک جنگی ہیرو، ماہرِتعلیم اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے پُرجوش محافظ تھے۔ ان کی زندگی کا سفر، جنگی جہاز سے لے کر تعلیم اور انسانی حقوق کے میدان تک، ایک غیرمعمولی داستان ہے، جو ہر پاکستانی کے لیے باعثِ فخر ہے۔ نئی نسل شاید سیسل چوہدری کے نام اور کارناموں سے واقف نہ ہو، لیکن وہ پاکستان کی تاریخ کے سنہرے حروف میں شامل ہیں۔ ان کی برسی کے موقع پر، یہ مضمون نہ صرف انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کا ایک ذریعہ ہے بلکہ نوجوان نسل کو اس عظیم جنگی ہیرو، ماہرِتعلیم، اور انسانی حقوق کے محافظ سے روشناس کرانے کی ایک کوشش بھی ہے۔ خاندانی پس منظر: سیسل چوہدری معروف پاکستانی کاتھولک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم فوسٹن ایلمر چوہدری، المعروف ’’چاچا چوہدری‘‘ پاکستان میں جانا پہچانا نام ہیں۔ وہ اپنے پانچ، بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے۔ معروف محقق اعظم معراج اپنی کتاب ’’شانِ سبزوسفید‘‘ میں لکھتے ہیں،’’وہ 27 اگست 1941 کو ڈھلوال گاؤں جو کہ سالٹ رینج میں واقع ہے، پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہے تھے۔ چند سالوں کے بعد ان کے والدین لاہور منتقل ہوگئے اور سینٹ انتھنی سکول میں درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔ سیسل چوہدری نے اپنی ابتدائی تعلیم سینٹ انتھنی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد ایف سی کالج لاہور سے ایف ایس سی کیا اور پائلٹ بننے کے شوق کی تسکین کے لیے دوران تعلیم ہی ایئراسکاؤٹ جوائن کیا اور اپنا بطور گلائیڈ ر پائلٹ ونگ 1956 میں حاصل کیا۔ وہ 23 جی ڈی پی کورس کے ذریعے پاکستان ایئرفورس کے لیے منتخب ہوئے اور 12 مارچ 1958 کو رسالپور اکیڈمی میں داخل ہوئے جہاں سے 26 جون 1960 کو پاس آؤٹ ہوئے اور کمیشن ملنے کے بعد فائٹر کنورژن کورس کے لیے 12 اسکواڈن میں منتخب ہوئے۔ وہ اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتے تھے کہ انہیں اپنی پہلی پوسٹنگ 5 اسکواڈرن میں ملی جہاں اسکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی شہید کی ولولہ انگیز قیادت میں کام کرنے کا موقع ملا۔‘‘ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے بے مثال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے اڈوں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ F-86 سیبر لڑاکا طیارہ اڑاتے ہوئے انہوں نے کئی خطرناک مشنز سرانجام دیے، جن میں آپریشن گرینڈ سلیم بھی شامل تھا۔ ان کی بہادری نے انہیں پاکستان کے ممتاز جنگی ہوابازوں کی صف میں لا کھڑا کیا، جس کے اعتراف میں انہیں ’’ستارۂ جرأت‘‘سے نوازا گیا۔ 1971 کی جنگ میں بھی انہوں نے بے خوفی کے ساتھ وطن کی فضائی سرحدوں کا دفاع کیا اور اپنی شان دار جنگی مہارت کا لوہا منوایا۔ 1965 کی جنگ میں اُن کے کارنامے تاریخ کا وہ حصہ ہیں جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ 1971 کی جنگ میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’ستارہِ بسالت‘‘ سے نوازا گیا، دوران ملازمت وہ کئی اہم منصبوں پر تعینات رہے جن میں 9 اسکواڈرن کی کمانڈ، ڈپٹی ڈائریکٹرایئر آپریشن، کمانڈنگ آفیسر، Combat Commanders' School، شامل ہیں۔ 1979 سے لے کر 1983 تک عراق میں ڈیپوٹیشن پر بھی رہے۔ ان کے شان دار فنی کیریئر کا اختتام 2 جولائی 1986 کو ہوا۔ 2013 میں اُن کی تعلیمی خدمات کے لیے اُنہیں صدرِ پاکستان کی جانب سے’’تمغۂ حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا گیا جو اُن کے بیٹے نے وصول کیا۔ 1964میں ان کی شادی آئرس چوہدری سے ہوئی ان کے چار بچے ہیں، تین بیٹیاں مِشیل چوہدری، کیرل حئی، میرلین خان اور بیٹا سیسل شین چوہدری ہے۔ ان کی بیٹی مشیل چوہدری نے ان کی یاد میں پاکستان میں اقلیتوں کے دفاع کے لیے سرگرم ایک این جی او ’’سیسل اینڈ آئرس چوہدری فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ سیسل چوہدری فضائیہ کے بعد تعلیم کے میدان میں آگئے اور پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن سے وابستہ ہوگئے۔ سینٹ میریز اکیڈمی، راولپنڈی کے پرنسپل بننے سے پہلے، انہوں نے کئی سالوں تک سینٹ انتھنی کالج، لاہور کے پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دیں یہاں سے وہ جولائی 2011 کو ریٹائر ہوئے تھے۔ سیسل چوہدری ایک بااثر، آزاد انسانی حقوق کے کارکن کے ساتھ ساتھ معذور بچوں کی بہتری اور تعلیمی اصلاحات کے لیے بھی کام کرتے رہے۔ وہ 1990 کی دہائی کے اوائل سے شہباز بھٹی کے ساتھ آل پاکستان مینارٹیز الائنس (APMA) کے آغاز سے ہی ایگزیکٹیو سیکریٹری رہے۔ وہ نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس سے بھی وابستہ تھے اور 2002 میں پاکستان کے مشترکہ انتخابی نظام کی بحالی کا باعث بننے والی چودہ سالہ مہم کی قیادت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بطورباپ، رول ماڈل: سیسل چوہدری نے جہاں زندگی کے ہر میدان میں کام یابی حاصل کی، وہیں وہ بطور باپ بھی ایک مثال تھے۔ اُن کے بیٹے سیسل شین چوہدری نے بتایا،’’ابو کی ساری زندگی اصولوں کی پاس داری اور قوانین پر عمل کرتے ہوئے گزری، بطور باپ وہ ایک شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے، تاہم گھر میں بھی وہ اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتے تھے۔ ہم نے اپنے والد کی زندگی سے یہ سیکھا، بلکہ عملی طور پر دیکھا کہ جو بھی کام کریں، دل و جان اور مکمل ایمان داری سے کریں۔ تبھی آپ اپنے کام سے انصاف کر پائیں گے۔ ابو ہمیشہ کہتے تھے کہ اپنے اہداف ہمیشہ بڑے رکھیں تاکہ آپ اُنہیں حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں اور بہترین نتائج حاصل کریں۔‘‘ ان کی بیٹی مِشیل چوہدری نے کہا،’’ہمیں فخر ہے کہ ہم ایک ایسے مُحبِ وطن جاںباز کی اولاد ہیں جنہیں نہ صرف مسیحی بلکہ عام پاکستانی بھی آج تک یاد کرتے اور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی انہیں جانا اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ اپنے ماں باپ کی بڑی بیٹی ہوتے ہوئے اُن کے نظریات آج بھی تاریک راہوں میں مجھے روشنی مہیا کرتے ہیں۔ انہوں نے قوم کے لیے جو بھی سوچا تھا اس کی تکمیل کے لیے میں نے ’دی سیسل اینڈ آئرس چوہدری فاؤنڈیشن‘ بنائی ہے تاکہ اس ملک میں پس ماندہ اور پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی کرتے ہوئے انہیں انصاف اور ان کا حق دلا سکوں۔ مجھے فخر ہے کہ انہوں نے اپنی عسکری خدمات کے دوران اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ملکی سرحدوں کی حفاظت کی۔ حتٰی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے ملک و قوم کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا بیڑا بھی اٹھایا۔ میرے لیے ان کے یہ الفاظ۔۔۔عقیدے کے لحاظ سے میں مسیحی ہوں لیکن میرا مذہب انسانیت ہے۔ ایک ایسی سچائی ہے جو کسی صحیفے سے کم نہیں۔‘‘ تعلیمی خدمات، سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے علم دار: وہ انسانیت اور بین المذاہب آہنگی کے پیام بر تھے۔ سیسل چوہدری کا جذبۂ خدمت صرف فوجی میدان تک محدود نہ تھا، بلکہ وہ ایک شفیق استاد اور زبردست ماہرتعلیم بھی تھے۔ پاک فضائیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے لاہور کے سینٹ انتھنی ہائی اسکول کے پرنسپل کی حیثیت سے ہزاروں طلبہ کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کی۔ وہ تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ وہ کم زور طبقے کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے حامی تھے۔ تعلیم کے بعد ان کی جدوجہد نے اقلیتی حقوق کے دفاع کی صورت اختیار کرلی۔ وہ شہباز بھٹی (پاکستان کے پہلے وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور) کے قریبی ساتھی تھے اور ملک میں مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے سرگرم عمل رہے۔ وہ ہمیشہ امتیازی قوانین کے خاتمے اور اقلیتوں کے مساوی حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ ایک لازوال ورثہ: سیسل چوہدری کی زندگی جرأت، دیانت اور خدمت کی روشن مثال ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ ایک سچا ہیرو وہ ہوتا ہے جو نہ صرف میدانِ جنگ میں کام یاب ہو بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی بھی لائے۔ 13 اپریل 2012 کو وہ دنیا سے رخصت ہوگئے، لیکن ان کی خدمات اور قربانیاں آج بھی یاد رکھی جاتی ہیں۔ وہ پاکستان کے دفاع، تعلیم اور انسانی حقوق کے شعبوں میں اپنی گراں قدر خدمات کی بدولت ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہیں گے۔ پاکستان، دھرتی کے اس عظیم بیٹے کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، جو ایک عظیم سپاہی، ایک شفیق استاد اور عدل وانصاف کے ایک متحرک محافظ تھے۔ سیسل چوہدری کی زندگی کو کسی نے خوب صورت پیرائے میں سمویا تھا،’’انہوں نے اپنی زندگی کے پہلے 27 سال وطن کی زمینی اور فضائی سرحدوں کی حفاظت کی اور باقی 27 سال پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے لیے وقف کر دیے۔‘‘ سیسل پاکستان کی وہ واحد مسیحی شخصیت ہیں جن کے نام پر پاکستان ایئر فورس نے پی ایف اے بیس سکیسر میں ایک چرچ بنایا ہے جس کا نام ’’سیسل چوہدری چرچ‘‘ ہے، جو اپنی نوعیت کا منفرد اعزاز ہے۔ اس کے علاوہ سرگودھا، میں یونیورسٹی روڈ، پر واقع چوک کو6 ستمبر 2016، گروپ کیپٹن سیسل چوہدری کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ ان کی خدمات آج بھی قوم کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ حال ہی میں ان کی غیرمعمولی خدمات کے اعتراف میں پی اے ایف اسپتال اسلام آباد میں سیسل چوہدری کمپلیکس قائم کیا گیا ہے، جو جدید طبی سہولیات سے آراستہ ہے۔ یہ کمپلیکس نہ صرف ان کی قربانیوں اور جدوجہد کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے بلکہ ان کے جذبۂ انسان دوستی اور خدمت کے عزم کی عملی تصویر بھی ہے۔ واضح رہے کہ سیسل چوہدری کی زندگی ہمت، شجاعت اور خدمتِ خلق کی درخشاں مثال تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ ’’لیجنڈز کبھی نہیں مرتے، وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔‘‘ سیسل چوہدری آج اس دُنیا میں نہیں ہیں، مگر ان کی جدوجہد، خدمات اور اثرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ان کا نام صرف تاریخ کے اوراق میں درج نہیں، بلکہ ان اداروں اور منصوبوں میں سانس لے رہا ہے جو ان کے حوصلے، ایثار اور خدمتِ خلق کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہمیشہ زندہ رہنے والی میراث کے وارث: ان کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں سینٹ انتھنی اسکول، لاہور کو جانے والے روڈ کو ’’سیسل چوہدری روڈ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ میں اس روڈ سے گزر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ہمارے دور کا یہ عظیم انسان 13 اپریل 2012 کو دُنیا سے سِدھار گیا، اور لاہور کے مسیحی قبرستان، (گورا قبرستان ) میں مدفون ہے، لیکن اپنے کارناموں سے وہ آج بھی زندہ ہیں اور ہم انسانوں کو اپنی زندگی بہتر بنانے کا نمونہ دے کر امر ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے تھے،’’ایمان کے لحاظ سے میں ایک مسیحی ہوں، لیکن میرا مذہب انسانیت ہے۔‘‘ سیسل چوہدری کی زندگی اور خدمات نے ثابت کیا ہے کہ پاکستانی مذہبی اقلیتیں، اپنے وطن کی ترقی، بقاء اور استحکام کے لیے کمربستہ رہیں گی اور سبز ہلالی پر چم کی سربلندی کے لیے ہر میدان میں اپنے حصے کی شمع روشن رکھیں گی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل