Loading
کچھ مقامات صرف جغرافیہ نہیں ہوتے وہ خواب ہوتے ہیں، وہ وہم و گمان کی دھند میں چھپی ہوئی ایسی حقیقتیں ہوتے ہیں جو اچانک سامنے آ کر دل کو چھو جاتی ہیں۔ آذربائیجان کا پہلا سفر، خاص طور پر باکو کی سرزمین پر پہلا قدم میرے لیے ایک ایسا ہی خواب تھا۔ ایک ایسا خواب جو ہر لمحہ، ہر منظر، ہر لمس میں حقیقت بنتا گیا۔ جس میں پہاڑوں کی پرچھائیاں تھیں، تاریخ کی سانسیں، ہوا میں گھلی محبت، اور آنکھوں میں بس جانے والے مناظرتھے۔ باکو کے سفر کا سبب بنا پی آئی اے جس کی پہلی پرواز نے لاہور سے باکو کے لیے اُڑان بھری،چار گھنٹے تیس منٹ کی پرواز کے بعد طیارے نے باکو کی سرزمین کو چھوا تو دل میں جیسے کوئی پُرانا ترانہ بج اٹھا۔ ائر پورٹ پر مسافروں کا والہانہ استقبال کیا گیا ۔ باکو ائر پورٹ کے ڈائریکٹر کے علاوہ پاکستان کے سفیر محترم قاسم محی الدین بھی موجود تھے۔ ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہی جس شے نے مجھے اپنی گرفت میں لیا وہ باکو کی خنک ہوا تھی، وہ ہوا جس میں نمکین بحیرہ کیسپین کی خوشبو بھی تھی اور کوہ قاف کی برفوں کی ٹھنڈک بھی تھی۔باکو شہر میں ایک طرف وہ تاریخی دیواریں ہیں جن کے اندر صدیوں پرانی ثقافت اور تہذیب سوئی نہیں ہے بلکہ سانس لیتی ہے۔ اور دوسری طرف جدید عمارات ہیں۔ باکوکا پرانا شہر ایک جیتی جاگتی داستان ہے۔ نظامی کے علاقے میں پتھریلی گلیوں میں چلتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے ہر دیوار، ہر دروازہ کوئی پرانا راز سنانا چاہتا ہے۔ یہاں کے بازار، عمارتیں اور گلیاں صدیوں پرانی محبت کی گواہی دیتی ہیں۔پڑھتے اور سنتے آئے تھے کہ کوہ قاف کے بلند بالا پہاڑوں سے پریاں اترتی ہیں، باکو میں ان پریوں کو دیکھ بھی لیا ۔اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو حسن ِ بے نیاز سے نوازا ہے۔ باکو وہ مقام ہے جہاں آسمان زمین کو چھوتا ہے۔ جہاں خاموشی بولتی ہے اور ہوا خوشبو بن کر آپ کے وجود میں اترتی ہے۔ آذربائیجان کی آبادی مسلم اکثریت پر مشتمل ہے مگر افسوس کہ یہاں پر آذان کی آواز سنائی نہیں دیتی، سوویت یونین کے اثرو رسوخ کے اثرات ابھی باقی ہیں۔ سیکولر آذربائیجان میں ہر طرح کی آزادی ہے۔ مسجدیں بھی ہیں اور مے خانے بھی جا بجا کھلے ہیں۔ صفائی ستھرائی کا اعلیٰ ترین نظام ہے۔ کہیں کوئی گندگی نظر نہیں آتی ۔ وسیع وعریض شاہراہیں ہیں، ٹریفک نہایت منظم انداز سے رواں رہتی ہے۔سیکیورٹی کے مسائل بالکل بھی نہیں ہیں، سیاح بے خوف و خطر سفر کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے سیاحتی سفر کیے ہیں، دنیا کے ہر ملک میں ٹیکسی اور پبلک ٹرانسپورٹ مہنگی ہے لیکن باکو میں ٹیکسی ، بسوں اور ٹرین کا سفر انتہائی سستا ہے۔ یہاں کے لوگ ملنسار ہیں، یہ اس درخت کی مانندہیں جن کی جڑیں زمین میں ہیں اور شاخیں آسمان تک پھیلی ہوئی ہیں۔ سادہ مہمان نواز اور دل سے بات کرنے والے ہیں۔ گو کہ انگریزی زبان سے نابلد ہیں، ان کی زبان اگرچہ آذری ہے مگر دل کی زبان میں کوئی ترجمہ درکار نہیں ہوتا۔ جب میں نے کسی دکاندار یا راہ چلتے بزرگ کو بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں تو چہرے پر جو روشنی آئی وہ لفظوں میں نہیں سماتی۔وہ ہر جگہ پاکستان کا ذکر عزت سے کرتے ہیں اور ہر موقع پر بھائی چارے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک شکرگزاری ہوتی ہے،شاید اس لیے کہ پاکستان نے ان کی آزادی کے دنوں میں پہلا ساتھ دیا اور آج تک دیا ہے۔پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بھی مختلف جگہوں پر لہراتا ہوا نظر آتا ہے۔ آذری کھانوں کی بات نہ کی جائے تو یہ داستان ادھوری رہے گی ۔ڈولما،قُتب ،شاشلک اور ان کے مختلف ذائقوں والے پلاؤ ہیں۔ یہ صرف کھانے نہیں،ایک ثقافتی تجربہ ہوتے ہیں خاص طور پر جب یہ روایتی آنگنوں میں تانبے کے برتنوں میں اور آذری موسیقی کے ساتھ پیش کیے جائیں۔ آذری چائے ایک رواج ہے، ایک رسم ہے اور ایک محبت کا اظہار ہے۔ ہر ملاقات ہر وداع،ہر سفر، اور ہر جذبہ چائے کے ایک شیشے کے جام میں سمو دیا جاتا ہے۔ اکثر چائے کے ساتھ لیموں اور مقامی مٹھائیاں بھی پیش کی جاتی ہیں، جیسے محبت کے الفاظ کسی میٹھے ذائقے میں گھول دیے گئے ہوں۔ ترک ثقافت کا بھی گہرا اثر ہے ۔ آذری زبان ترکی سے ملتی جلتی ہے۔ یہاں روسی زبان بھی کثرت سے بولی جاتی ہے۔ رات کا وقت، باکو کا ساحل اور سامنے فلیئم ٹاورز کی روشنی میں ناچتی ہوئی شعلہ نما عمارات یہ منظر کسی خواب سے کم نہیںہے، ہر لمحہ ایک اور کہانی سناتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پوری کائنات نے اپنے رنگ یہاں انڈیل دیے ہوں۔شہر میں جدیدیت ہے، مگر بے روح نہیں ہے ،ہر عمارت میں فن ہے، ہر گلی میں کوئی ساز ہے ۔ یہاں جدیدیت بھی ثقافت کی جھلک لیے ہوئے ہے، اور ہر شخص فخر سے اپنے ماضی سے جڑا ہوا ہے۔ میرا یہ دورہ ایک سیاحتی سفر سے کہیں بڑھ کر تھا۔ میں نے دیکھا، سنااور محسوس کیا وہ تعلق جو دونوں ملکوں کے درمیان محض کاغذی نہیں بلکہ جذباتی ہے۔ آذربائیجان میں جب بھی پاکستان کا نام آیا وہ صرف ایک ملک نہیں ایک بھائی کی حیثیت سے لیا گیا۔ کشمیر ہو یا کاراباخ دونوں اقوام نے ہمیشہ ایک دوسرے کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ واپسی کی شام تھی۔ باکو کی روشنیاں مدھم ہو رہی تھیں۔ ہوا میں ایک الوداعی اداسی گھلی ہوئی تھی۔ ائر پورٹ پرمیرے ہاتھ میں آذری چائے کا آخری جام تھا اور دل میں ایک وعدہ کہ یہ کوہ قاف کے خوبصورت لوگوں سے پہلی ملاقات ہے مگر آخری ہرگز نہیں ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل