Monday, April 28, 2025
 

بلدیاتی بل2025ء ...سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات عوامی نمائندوں کو دینا ہونگے!!

 



بلدیاتی نظام جمہوریت کی نرسری اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نظام سے نہ صرف نئی قیادت ابھرتی ہے بلکہ عوام کے بنیادی مسائل بھی موثر انداز میں حل کرلیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں پنجاب اسمبلی میں نئے بلدیاتی نظام کا بل پیش کیا گیا جو اس وقت سٹینڈنگ کمیٹی کے پاس موجود ہے۔ یہ بل کیاہے، اس میں کس طرح کا بلدیاتی نظام تجویز کیا گیا ہے، اس پر متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے کیا تحفظات ہیں، بلدیاتی انتخابات کب ہوں گے؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی اور ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔ پیراشرف رسول (چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی برائے لوکل باڈیز پنجاب اسمبلی) عوامی نمائندوں کے بجائے ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کے پاس اختیارات کے حق میں نہیں۔ سٹینڈنگ کمیٹی کے حکومتی و اپوزیشن اراکین ،بیوروکریسی کے بجائے ضلعی حکومتوں اور عوامی نمائندوں کے پاس اختیارات پر متفق ہیں، ہماری نیت میں عوام کو ریلیف دینا ہے تو کسی بھی صورت آئین سے باہر نہیں جائیں گے۔ اس بل میں بلدیاتی حکومتوں کی مدت 5 برس رکھی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس بل کے حوالے سے فیک نیوز پھیلائی جا رہی ہے۔ یہ بل محض ’پرپوزل‘ ہے، سٹینڈنگ کمیٹی اس کا بغور جائزہ لے رہی ہے، اس میں ضروری تبدیلیاں کی جائیں گی۔ میں نے اپوزیشن لیڈر سے تمام اپوزیشن اراکین کی تجاویز مانگ لی ہیں، ان کی آراء کو شامل کیا جائے گا۔ ہم آئین کے آرٹیکل 140(اے) کے تحت مقامی حکومتوں کو سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات دینے کے حق میں ہیں۔ مقامی حکومتیں سیاست کی نرسری ہیں، ہم اسی نرسری سے یہاں تک پہنچے ہیں لہٰذاہم ایک بہترین بلدیاتی نظام کی تشکیل یقینی بنائیں گے۔ اس بل میں کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز کی بات کی گئی ہے، میں پہلے سوشل ورکر تھا، پھر سیاست میں آیا لہٰذا ہم ان اداروں کی رجسٹریشن، بینک اکاؤنٹ اور دیگر معاملات کو آسان بنائیں گے۔ ہم تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے آگے بڑھ رہے ہیں، سب کی بہترین تجاویز کو کمیٹی میں زیر بحث لاکر شامل کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے جنرل نشستوں پر خواتین کے لیے 5فیصد ٹکٹ لازمی قرار دیے اور ان نشستوں پر خواتین براہ راست الیکشن جیت کر آئیں۔بلدیاتی بل میں خواتین کی بہترین نمائندگی پر غور کیا جائے گا۔فوجی آمر اپنی ضرورت کے تحت بلدیاتی نظام قائم کرتے ہیں۔ جنر ل(ر) پرویز مشرف نے بلدیاتی حکومتیں بنائی، انہیں اختیارات دیے اور ان کے ذریعے نظام چلایا کیونکہ اس سے اوپر کوئی میکزم نہیں تھا۔ قومی اسمبلی میں ترمیم کرکے بلدیاتی حکومتوں کی مدت 5 برس کی جائے اور اس کا تسلسل یقینی بنایا جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ویژن اور ہدایت کے مطابق پنجاب حکومت عوامی فلاح کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنے میں سنجیدہ ہے اور اس کیلئے تگ و دو بھی کر رہی ہے۔ ہم بلدیاتی نظام کے ذریعے عوامی مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل کریں گے۔ مجوز ہ بل پر خواتین، اقلیتوں، مزدوروں کی نمائندگی، بالواسطہ انتخابات، بیوروکریسی کے اختیارات، ضلعی حکومتوں کی عدم موجودگی سمیت تمام اعتراضات کو سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے دور کیا جائے گا۔ پروفیسر ارشد مرزا (نمائندہ سول سوسائٹی ) پنجاب اسمبلی میں بلدیاتی بل کا پیش ہونا پنجاب حکومت کا قابل تحسین اقدام ہے، اس سے صوبے میں 10 برس بعد بلدیاتی انتخابات کی امید پیدا ہوئی ہے۔ یہ مسودہ سٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے ، امید ہے یہ کمیٹی تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تحفظات دور کرکے ایک مضبوط اور بااختیار بلدیاتی نظام کی تشکیل میں اپنا بہترین کردار ادا کرے گی۔ مجوزہ بلدیاتی بل میں ضلع کونسل کو ختم کرنے کی تجویز نامناسب ہے، اس سے بلدیاتی نظام غیر فعال ہو جائے گا، ضلعی سطح پر ترقیاتی کام نہیں ہوں گے، تحصیلوں کے درمیان رابطہ ختم ہو جائے گا اور تحصیل کی سطح پر آئسولیشن کی صورتحال ہوگی لہٰذا اس پر نظر ثانی کرکے ضلع کونسل بنانی چاہیے۔ خواتین ملکی آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ یونین کونسل کی سطح پر 9 جنرل نشستیں ہیں جبکہ خواتین کیلئے ایک نشست تجویز کی گئی ہے، اس طرح خواتین کی نمائندگی انتہائی کم ہوگی ، اسے بڑھایا جائے، اگر آبادی کے تناسب سے نہیں تو کم از کم 33 فیصد نمائندگی لازمی دی جائے۔ یونین کونسل کی سطح پر کسانوں کے ساتھ ساتھ مزدوروں کیلئے بھی نشست مختص کی جائے، انہیں نظر انداز نہ کیا جائے۔ اقلیتوں کیلئے ایک نشست رکھی گئی ہے جس کا انتخاب جیتنے والے جنرل کونسلرز کریں گے جبکہ اپنا نمائندہ چننے میں اقلیتوں کا کوئی کردار نہیں ہوگا جو درست نہیں۔ اقلیتی نمائندے کا چناؤ براہ راست اقلیتوں کی ووٹنگ کے ذریعے ہونا چاہیے۔اس بل میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا اختیارات کی تقسیم آئین کے آرٹیکل 140 (اے) کے مطابق کی گئی ہے؟ کیا لوکل باڈیز کو مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات دیے جا رہے ہیں؟ مجوزہ بلدیاتی نظام میں زیادہ اختیارات بیوروکریسی کو منتقل کیے جا رہے ہیں۔ ضلعی سطح پر اتھارٹیز کے سربراہ ڈپٹی کمشنرز ہوں گے اور جو ریگولیٹری باڈیز بن رہی ہیں ان میں بھی سول سروسز والے ہوں گے۔ سول سرونٹس کی ذمہ داریاں زیادہ ہوتی ہیں، وہ مصروف ہوتے ہیں، عام آدمی کے ساتھ ان کا فاصلہ ہوتا ہے اور ان تک رسائی آسان نہیں ہوتی لہٰذا بیوکریسی کے بجائے عوامی نمائندوں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اختیارات دیے جائیں۔اس بل میں کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز کی بات کی گئی ہے جن کی رجسٹریشن ہوگی اور بینک اکاؤنٹ کھولے جائیں گے۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ ’سی بی او‘ کی رجسٹریشن اور بنک اکاؤنٹ کھلوانا انتہائی مشکل کام ہے لہٰذا یہ طریقہ کار سادہ اور آسان کرنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس بل میں خواتین کی ڈویلپمنٹ اور امپاورمنٹ نظر نہیںا ٓتی۔ اسی طرح اقلیتوں اور خصوصی افراد کے حوالے سے بھی سروسز کا چیپٹر خاموش ہے۔ کسان اور مزدور ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ان کے مسائل کے حل کیلئے بھی تجاویز کو شامل کیا جائے۔ سلمان عابد (سیاسی تجزیہ کار) آئین پاکستان قومی، صوبائی اور ضلعی حکومتوں کی بات کرتا ہے اور آرٹیکل 140(اے) کے تحت صوبائی حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ لوکل گورنمنٹ کی تشکیل یقینی بنائیں اور انہیں سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات بھی دیں۔یعنی مقامی حکومت کا سربراہ بیوروکریٹ نہیں بلکہ عوامی نمائندہ ہوگا اور یہی آئین پاکستان کی روح ہے۔ جس طرح وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سربراہان منتخب عوامی نمائندے ہوتے ہیں اسی طرح ضلعی حکومتوں کے نمائندے بھی عوام کے منتخب نمائندے ہونے چاہئیں۔ مجوزہ بلدیاتی ایکٹ 2025ء میں تحصیل کونسل، میونسپل کمیٹی اورکارپوریشن کی بات تو کی گئی ہے لیکن لوکل گورنمنٹ کا ذکر ہی نہیں۔ اس کے علاوہ اختیارات منتخب نمائندوں کو دینے کے بجائے ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر کو دیے جا رہے ہیں، یہ مل کر ضلع کا نظام چلائیں گے اور یہ تینوں ہی غیر منتخب ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں لوکل گورنمنٹ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ 1979 ء کا قانون لوکل باڈیز کی بات کرتا تھا، 18 ویں ترمیم کے بعد لوکل گورنمنٹ کا لفظ لکھا گیا۔ عوامی نمائندے عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ بیوروکریسی کے بجائے عوامی نمائندوں کو زیادہ بااختیار ہونا چاہیے۔ ڈسٹرکٹ کونسل کو ختم کرنا، اس بل کی سب سے بڑی خامی ہے۔ اراکین اسمبلی اور سیاستدان خود بھی چاہتے ہیں کہ اختیارات ان کے پاس ہونے چاہئیں، گورنر پنجاب نے بھی عوامی نمائندے کو اختیارات دینے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں یہ طے کیا گیا تھا کہ لوکل باڈیز کے لوگ الیکشن لڑ کر آئیں گے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی نظام کو تجربہ گاہ بنا دیا ہے، ہر حکومت نیا بل لاتی ہے جو ان کی اپنی سابق حکومت سے بھی مختلف ہوتا ہے۔ ہر صوبے میں بلدیاتی نظام مختلف ہے اور اس کا تسلسل بھی برقرار نہیں رکھا جاتا۔ حالیہ بلدیاتی بل میں ان ڈائریکٹ انتخابات پر زور دیا جا رہا ہے حالانکہ براہ راست انتخابات ہونے چاہئیں۔تحریک انصاف کے گزشتہ دور حکومت میں خیبرپختونخوا میں براہ راست الیکشن کے ذریعے چیئرمین اور وائس چیئرمین منتخب ہوئے اور13 اضلاع میں ان کے مخالفین کی حکومت آئی۔ اس میں پی ٹی آئی کو نقصان ہوا لیکن یہ ایک اچھا اقدام تھا جسے آگے بڑھانا چاہیے۔ ہمیں چاروں صوبوں کے بلدیاتی نظام کے حوالے سے کچھ اصول طے کرنا ہوں گے کہ براہ راست انتخابات ہوں گے اور آرٹیکل 140 (اے) کے مطابق بلدیاتی حکومتوں کو سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات منتقل کیے جائیں گے، اسی طرح آرٹیکل 32، آرٹیکل 7 اور آرٹیکل 23 پر بھی تمام صوبوں کو عملدرآمد کرنا ہوگا۔ آئین پاکستان چاروں صوبوں پر لاگو ہوتا ہے لہٰذا انہیں آئین کی روح کے مطابق بلدیاتی نظام قائم کرنا چاہیے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر حکومت ہر مرتبہ نیا بلدیاتی نظام لائے؟ مسلم لیگ (ن) نے اس مرتبہ جو بلدیاتی نظام تجویز کیا ہے یہ ان کے سابق نظام سے مختلف ہے۔ اس طرح بلدیاتی نظام نہیں چل سکتا، اس کا تسلسل انتہائی اہم ہے۔ آخری مرتبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات 2015ء میں ہوئے تھے، اس میں مختلف جماعتوں کی حکومتیںا ٓئیں لیکن کسی پر کوئی قانونی قدغن نہیں لگی۔ میری تجویز یہ ہے کہ آرٹیکل 140(اے) کے ساتھ ساتھ 140(بی) بھی ہونا چاہیے جو صوبوں کو پابند کرے کہ بلدیاتی حکومت کے ختم ہونے کے 90 روز کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کروائے۔ اس کے علاوہ صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کی مدت یکساں یعنی 5 سال کر دی جائے۔ جیسے ہی صوبائی حکومتیں بنیں وہ 120روز کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کروائیں تاکہ ایک ہی ساتھ حکومتیں بنیں اور کام چلے۔ ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ ہر نئی حکومت ، بلدیاتی حکومتوں کو ختم کردیتی ہے اورنئے انتخابات نہیں کراتی جس کی وجہ سے نظام کا تسلسل قائم نہیں ہوسکا۔ ایک صوبے میں خواتین کی 10 فیصد ، دوسرے میں 12 فیصد، تیسرے میں 15 فیصد اور چوتھے میں 9 فیصد نشستیں ہیں، یہ کیسا نظام ہے۔ اسی طرح اقلیت، مزدور، کسان، چاروں صوبوں میں ان کی نمائندگی مختلف ہے، صوبے بااختیار ہیں لیکن ہم آہنگی ضرور ہونی چاہیے۔ یہ صوبائی حکومتوں کا آئینی حق ہے کہ وہ اس حوالے سے معاملہ طے کریں لیکن کچھ یکساں بنیادی اصول طے ہونے چاہئیں تاکہ عوام کو چاروں صوبوں میں یکساں ترقی اور مواقع میسر ہوسکیں۔ہمیں یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ نظام منتخب نمائندوں کے ذریعے چلانا ہے یا سرکاری افسران کے۔ اگر ہمیں بیوروکریسی کے چنگل سے نکلنا ہے تو اختیارات عوامی نمائندوں کو دینا ہوں گے، اتھارٹیوں اور کمپنیوں کا وجود لوکل گورنمنٹ کی نفی ہے،ا نہیں مقامی حکومتوں کے تابع کرنا ہوگا۔ 2025ء میں بلدیاتی انتخابات کی بات کی جا رہی ہے جو خوش آئند ہے۔ ہمیں امید ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے مجوزہ بلدیاتی نظام کے حوالے سے تحفظات کو دور کیا جائے گا اور ایک بہترین بلدیاتی نظام لاکر عوام کی زندگی میں آسانی پیدا کی جائے گی۔ ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، غیر قانونی قبضے جیسے مسائل مقامی حکومتوں کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف مہنگائی کم ہوگی بلکہ عام آدمی کو فائدہ بھی ہوگا۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بیوروکریسی کو زیادہ اختیارات دے کر صوبے کو مضبوط نہیں بنایا جاسکتا، بیوروکریسی اور عوامی نمائندوں کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا، اس سے گورننس کے مسائل حل ہوجائیں گے اور صوبہ مضبوط ہوگا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل