Monday, April 28, 2025
 

بھارتی فسطائی عزائم اور آبی جنگ

 



وزیراعظم شہباز شریف نے ہر طرح کی دہشت گردی کی شدید مذمت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہونے کے ناتے پہلگام واقعہ کی کسی بھی غیرجانبدارانہ، شفاف اور قابل اعتماد تحقیقات میں شرکت اور تعاون کے لیے تیار ہے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ہم نے پاکستان کے لیے بہت سی قربانیاں دیں، ہم اس کا دفاع کرنا جانتے ہیں، دو قومی نظریہ ہمیشہ سے پاکستان کے وجود کی بنیاد رہا ہے۔  پاک بھارت حالیہ کشیدگی کو اہم علاقائی اور عالمی قوتیں تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہیں کیونکہ ان دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان کشیدگی سے عالمی امن کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے بعض رپورٹس کے مطابق بعض اہم ممالک نے کشیدگی کو کم کرنے کی بیک ڈور کوششوں کا آغاز کر دیا ہے اور بھارت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کی جارحیت سے باز رہے، لیکن اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے اور خطے کو غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔  بھارت ہمیشہ اپنی داخلی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی ناکام کوشش کرتا آیا ہے۔ جہاں تک اس امرکا سوال ہے کہ بھارتی حکومت پاکستان کے خلاف جارحیت کرسکتی ہے تو بھارت پاکستان کے حوالے سے اچھی طرح جانتا ہے کہ اس پر جارحیت مسلط کرنا خود کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بھارت اس حوالے سے خود کفیل ہے اور دہشت گردی کا متعدد ممالک میں مرتکب ہو چکا ہے، ہمیں بھارت سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے اور پہلگام واقعے کے حقائق منظر عام پر آنے کے بعد اس پر جھنجلاہٹ اور بوکھلاہٹ طاری ہے اور خود کو اس پریشان کن صورتحال سے نکالنے اور اپنی عوام کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے پاکستان کے کسی شہر یا مقام میں دہشت گردی کا مرتکب ہو سکتا ہے جس کے لیے ہمیں ابھی سے تیاری کی ضرورت ہے۔  بھارت اسلامو فوبیا اور آر ایس ایس کے انتہا پسند ہندو توا نظریے کو ہوا دے کر ملک میں جاری آزادی کی تحریکوں کو دبانا چاہتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ بھارتی میڈیا اور حکومت جعفر ایکسپریس پر حملے جیسے واقعات کے پیچھے بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردوں کا ہاتھ ہوتا ہے اور ایسے حملوں کے بعد بھارتی میڈیا کی جانب سے خوشیاں منانا اس کے مکروہ عزائم کو بے نقاب کرتا ہے۔ بھارتی پروپیگنڈہ مشینری ہمیشہ کی طرح اس بار بھی جھوٹ کا سہارا لے رہی ہے۔ پاکستان پر نام نہاد ’’دہشت گردی‘‘ کے الزامات لگا کر بھارت اصل معاملے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے دنیا کی آنکھیں چرانے کے لیے ہر محاذ پر پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم چلا رہا ہے۔  بھارتی جنتا پارٹی دراصل راشٹریہ سیوک سنگھ کا سیاسی بازو ہے جو کہ مقبوضہ کشمیر میں رام راج کا نفاذ چاہتی ہے، آئین میں اس کا سرکاری نام بھارت ہے، ہندوستان نہیں اور بھارت کو ایک سیکولر ملک کا درجہ دیا گیا تھا، مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازع علاقہ ہے، جہاں اس نے رائے شماری کرانے کا حکم دے رکھا ہے اور بھارت پچھتر سالوں سے اس پر مسلسل ٹال مٹول کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کشمیریوں کی نسل کشی کررہی ہے اور بھارتی فوجی ان کو شہید کرنے کے بعد جشن مناتے ہیں۔ مودی کو گجرات کے قصاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ماضی میں امریکا نے بھی اس کی دہشت گردانہ پالیسیوں کے باعث اس کے امریکا داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی، وہ شروع سے ہی مسلم دشمن رہا ہے۔  بھارت پاکستان میں خصوصاً بلوچستان اور فاٹا میں دہشت گردی کی کارروائیاں کروا رہا ہے، جن میں اب تک80ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں۔ کلبھوشن یادیو پاکستان میں ان کارروائیوں کا اعتراف بھی کرچکا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی ایشیا کے ان دو ممالک کے تعلقات کھبی بھی مثالی نہیں رہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر مداخلت کے الزامات لگاتے آرہے ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ پاکستان مذکورہ واقعے میں ایک ایسے وقت میں کیونکر ملوث ہونے کا رسک لے گا جب کہ اسے خود نہ صرف یہ کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کا سامنا ہے بلکہ افغانستان کے ساتھ بھی دہشت گردی کے معاملے پر اس کے تعلقات کشیدگی کی حد کو چھو رہے ہیں؟ ماہرین کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں سات سے نو لاکھ تک کی بڑی فوج رکھنے کے باوجود بھارت سے معاملات کنٹرول نہیں ہونے پارہے اور اس قسم کے واقعات سے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کا فائدہ اٹھا کر بھارت اپنی ناکام پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔کچھ عرصہ قبل راہول گاندھی نے اپنے ایک خطاب میں مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی ’’جیل ’’قرار دیتے ہوئے مودی سرکار کو جاری کشیدگی اور حالات کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر میں انسانی حقوق اور اظہار رائے کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جس نے بھارت کے سیکولر امیج کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ متعدد دیگر مین اسٹریم لیڈرز بھی حالات کی ذمے داری مودی سرکار پر ڈالتے آرہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان آبی دہشت گردی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی سخت خلاف ورزی ہے اس سے قبل بھی بھارت کشمیر سے بہنے والے دریاؤں پر غیر قانونی ڈیم بنا کر آبی جارحیت کا مرتکب ہوچکا ہے اور مسلسل پاکستان کو دھمکیاں دے کر خطے میں اپنی بلا دستی کے خواب دیکھ رہا ہے جس کا بھارت کا جنگی جنون اور توسیع پسندانہ عزائم سے علاقائی امن و استحکام کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ بھارت کی تخریبی سرگرمیوں اور ہمسایہ ممالک کے خلاف جارحیت کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں قیام امن مسلسل ایک خواب بنا ہوا ہے۔ بھارت کی فالس فلیگ آپریشنز پہلے سے غیر مستحکم علاقائی صورتحال کو مزید ابتر بنارہے ہیں۔ بھارت نے پہلگام حملے کو بہانہ بنا کر نہ صرف سندھ طاس معاہدے (انڈس واٹرز ٹریٹی) کو معطل کردیا ہے بلکہ پاکستان کا پانی روکنے کے لیے تین مرحلوں پر مبنی خطرناک منصوبہ بھی شروع کر دیا ہے۔ پہلگام حملے کو جواز بنا کر بھارتی حکومت نے وہ سازش شروع کی ہے جس کا مقصد پاکستان کی زرعی، معاشی اور ماحولیاتی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے۔ یہ بھارتی اقدام نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ انڈس واٹرز ٹریٹی کی کھلی توہین بھی ہے، بھارت نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو ’’معطل‘‘ کرنے کا اعلان کر کے اپنے جارحانہ عزائم دنیا کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بھارت کا منصوبہ جنوبی ایشیا میں آبی جنگ کا آغاز کرسکتا ہے، جس کے اثرات نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔ اقوام متحدہ، عالمی بینک اور دیگر عالمی اداروں پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ بھارت کو اس غیرقانونی اور اشتعال انگیز اقدام سے باز رکھیں۔ پاکستان کے عوام اور قیادت ایک بار پھر بھارت کو بتا دینا چاہتے ہیں’’ پانی ہمارا حق ہے، اور اس حق پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔‘‘  پاکستان اور بھارت دونوں کے پاس کم ازکم ڈیڑھ سو ایٹمی وار ہیڈز ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے تقریباً تمام بڑے شہروں کو تباہ کرسکتے ہیں، اگر جنگ ہوتی ہے تو ماہرین کے مطابق ایک ہفتے کے دوران دونوں ممالک کے تقریباً13کروڑ افراد موت کے منہ میں جاسکتے ہیں، واضح رہے کہ دوسری جنگ عظیم میں 5کروڑ افراد مرے تھے، جنگ کی صورت میں بھارت کی آبادی اور علاقہ زیادہ ہونے کے باعث وہاں زیادہ نقصانات کے امکانات ہیں، لہٰذا اس کو زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے، ترقی یافتہ دنیا بھی اس مسئلہ سے غیر متعلق نہیں رہ سکتی، کیونکہ جنگ کے اثرات سے نہ صرف دنیا میں شدید موسمی تبدیلیاں آئیں گی بلکہ زمینی پیداوار بھی30 فیصد تک کم ہوجائے گی، دونوں ممالک کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ مل جل کر حق و انصاف کے اصولوں کے مطابق اپنے مسائل طے کریں، ایک دوسرے کو دھمکیاں نہ دیں اور اکٹھے ہوکر غربت کے خلاف لڑیں، یورپ نے چار سو سال جنگیں لڑنے کے بعد بالآخر اس راز کو پا لیا کہ جنگیں تباہی کے سوا اورکچھ نہیں لاتیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل