Monday, April 28, 2025
 

ہماری کمزوریاں

 



یہ حقیقت ہے کہ اقتدار سے پہلے اور بعد میں بانی پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کا جس طرح کامیابی سے استعمال کیا وہ کوئی اور سیاسی جماعت ماضی میں کر سکی اور نہ ہی اب کر رہی ہے۔ بانی نے موجودہ حکمرانوں کے خلاف جو بیانیہ بنایا تھا وہ ان کی حکومت ختم ہونے کے تین سال بعد بھی نہ صرف کامیاب ہے بلکہ اس کا اب بھی طوطی بول رہا ہے۔ جن کے خلاف بانی نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم اور اپنے حامی اینکروں، تجزیہ کاروں اور وی لاگرز کے ذریعے بیانیے بنائے وہ سب اب بھی کامیاب ہیں۔ ان کے حامی کوئی ثبوت نہ ہونے کے باوجود ان جھوٹے اور بے بنیاد بیانیوں پر اب بھی مکمل یقین رکھتے ہیں حالانکہ اس وقت عدلیہ میں ان کے حق میں فیصلے ہو رہے تھے مگر ججز کی نوازشات کے باوجود کسی عدالت میں بانی کے سیاسی مخالفین کے خلاف خود ان کے پونے چار سالہ دور میں انھیں سزائیں نہیں دلا سکا تھا اور پی ٹی آئی حکومت میں ہی بانی کے تمام مخالفین ثبوت نہ ہونے پر بری یا ضمانت پر رہا ہو گئے تھے ۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم ہوئے تین سال ہو چکے مگر موجودہ حکمرانوں پر بانی پی ٹی آئی کے لگائے گئے مبینہ الزامات کا ڈھائی سال سے حکومت کرنے والے (ن) لیگ اور پی پی کے قائدین ان کا توڑ نہیں کر سکے اور نہ ہی انھوں نے اپنے خلاف لگائے گئے مبینہ الزامات کو ازخود عدالتوں میں چیلنج کیا۔ جو ججز بانی کو اقتدار سے قبل ہی صادق و امین قرار دے چکے تھے۔ اس کو بھی موجودہ حکمران غلط قرار دے کر سپریم کورٹ سے صادق و امین کے ریمارکس حذف کرا سکتے تھے۔ سپریم کورٹ نے 45 سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو بھی تو غلط قرار دیا تو صادق و امین پر بھی نیا عدالتی فیصلہ لیا جاسکتا تھا۔ موجودہ حکمرانوں نے بانی کے بیانیے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور جس طرح ان کی حکومت کے دور میں ان کے حق میں جو فیصلے آ رہے ہیں ان فیصلوں کو پی ٹی آئی تسلیم نہیں کر رہی۔ حکومتی دور میں آنے والے فیصلوں کو بے نظیر بھٹو چمک کے فیصلے قرار دیا کرتی تھیں۔ پی ٹی آئی نے ملک میں اپنے خلاف آنے والے درست فیصلوں کو بھی متنازعہ بنا دیا ہے اور منصفانہ فیصلے دینے والے ججز بھی پی ٹی آئی کی ٹرولنگ اور سوشل میڈیا کے مذموم پروپیگنڈے سے محفوظ نہیں رہے۔ فروری 2024 کے انتخابات بھی 2018 جیسے ہی تھے مگر اس بار پی ٹی آئی نے حکمرانوں کو فارم 47 کی جیت قرار دینے کا جو نیا بیانیہ بنایا وہ انتہائی کامیاب رہا اور سوا سال گزرنے کے بعد بھی حکومت، الیکشن کمیشن اس کا توڑ نہیں کر سکے اور لوگ سات سال پرانے آر ٹی ایس سسٹم کو بھول گئے جس کے ذریعے پی ٹی آئی کی حکومتیں بنوائی گئی تھیں جس پر موجودہ حکمران الزامات لگاتے تھے اور پھر 2018 کی قومی اسمبلی کے ذریعے ہی موجودہ حکمران 16 ماہ تک حکومت کرتے اور پی ٹی آئی کے بیانیے سے شکست کھاتے رہے۔ ہمارے موجودہ حکمران بیرون ملک بھی حقائق ظاہر کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہیں، بھارت بھی خارجہ پالیسی کی  کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے اور دہشت گردی اور جارحیت خود کراتا ہے اور فوراً الزام پاکستان پر لگا دیتا ہے جس پر دنیا فوراً یقین کر لیتی ہے اور بے گناہ ہوتے ہوئے بھی پاکستان منہ دیکھتا رہ جاتا ہے اور دنیا بھارت کے جھوٹے بیانیے کو بھی درست مان لیتی ہے اور امریکی صدر بھارت کے ساتھ ہونے کا بیان دے دیتا ہے اور عرب اور مسلم ممالک بھی حق پر ہوتے ہوئے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیتے اور بھارت کی مذمت نہیں کرتے جو سالوں سے ’’را‘‘ کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کرا رہا ہے جس کا ایک واضح ثبوت جعفر ایکسپریس سے ہونے والی کھلی دہشت گردی ہے جس میں بھی ہمارا اتنا ہی جانی نقصان ہوا تھا جتنا بھارت پہلگام کا بتا تو رہا ہے مگر ثبوت نہیں دے رہا۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ اور یرغمال بنائے جانے کا معاملہ پہلگام سے زیادہ اہم اور خطرناک تھا جس میں تمام مسافروں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ بلوچستان میں بھی بی ایل اے نے وہی امریکی ہتھیار استعمال کیے جو اب پہلگام میں استعمال ہوئے، یہ بڑا اہم پہلو ہوسکتا ہے۔ سانحہ جعفر ایکسپریس پر بھارتی میڈیا کا کردار دنیا نے دیکھا اور اب پہلگام واقعہ میں بھی اس کا کردار خود دہشت گردانہ ہے مگر ہماری حکومت دنیا کو اس سلسلے میں حقائق سے آگاہ نہیں کر سکی۔ کیونکہ ہمارے میڈیا میں موجودہ حکومت کے مخالف پی ٹی آئی کے حامی موجود ہیں جو اپنے ہی ملک کے بارے میں ذومعنی پراپگینڈا کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لیڈروں اور ان کے حامی میڈیا پرسنز کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ ایسے حالات میں جب بھارت پاکستان پر جارحیت کے موڈ میں ہے، انھیں اپنے ملک کی نہیں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی فکر زیادہ ہے۔ ہمارے وزیر اعظم آئے دن بیرونی دوروں پر ہوتے ہیں مگر وہاں کشمیر میں بھارتی مظالم اور پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کا کوئی ذکر نہیں ہوتا جب کہ بھارت دنیا بھر میں پاکستان پر جھوٹے الزامات لگا کر ہمیں بدنام کر رہا ہے اس لیے حکومت پہلے اس پر توجہ دے اور دنیا کو حقائق بتائے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل