Loading
پاکستان اور بھارت کی فضائیں خاصی گرم ہو چکی ہیں ۔ موسم کے لحاظ سے بھی اور سیاسی و سفارتی اعتبار سے بھی ۔پاکستان کے سرکاری ذمے داران ، عوام، مین اسٹریم میڈیااور سوشل میڈیا تو پھر بھی تحمل اور صبر کا مظاہرہ کررہے ہیں ، لیکن بھارت میں حالات یکسر مختلف ہیں۔ بھارتی وزرا، مقتدر پارٹیاں ، ہندو بنیاد پرست عوام، مین اسٹریم میڈیا اورسوشل میڈیا ، بیک زبان ، پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہُوئے اپنی فیصلہ ساز قوتوں کو پاکستان کے خلاف مشتعل کررہے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ بھارتی سیاستدان، میڈیا اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ اِک مِک ہو کر پاکستان کے خلاف شعلہ فشانیاں کررہے ہیںتو اِسے مبالغہ نہیں سمجھنا چاہیے ۔ یہ منظر اب واقعہ بن چکا ہے ۔ بھارتی ہاتھ اِس منظر کو اس لیے بھیانک شکل دے رہے ہیں کہ اُنہیں الزامی طور پر یقین دلایا گیا ہے کہ 22اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے جنت نظیر سیاحتی مقام، پہلگام، میں جو درجن سے زائد سیاح قتل کر دیئے گئے ، اِس مبینہ خونریز سانحہ میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ بھارت مگر پاکستان ،عالمی برادری ا ور غیر جانبدار عالمی اداروں کو ہنوذ کوئی بھی کافی ، شافی اور ناقابلِ تردیدثبوت دینے سے قاصر ہے ۔ پاکستان اور پاکستانیوں نے پہلگام سانحہ پر افسوس کا اظہار بھی کیا ہے اور اِس کی مذمت بھی کی ہے ، مگر بھارتی ضدی اور ہٹ دھرمی پرنالہ اپنی جگہ اٹل ہے۔ ایسے گرم ماحول میں وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے26اپریل2025 کو ایک ایسا پُر عزم اور ولولہ انگیز خطاب کیا ہے جب مبینہ سانحہ ’’پہلگام‘‘ کو وقوع پذیر ہُوئے 5دن گزرے تھے ۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب کا یہ خطاب معنی خیز بھی ہے اوردشمن کو واضح پیغام بھی۔ یہ پُر عزم اور پُر معنی خطاب موجودہ پاک بھارت گرم فضا میں بے حد ضروری بھی تھا اور وقت کی فوری ضرورت بھی ۔ پاکستانی عوام اپنے منتخب وزیر اعظم سے یہی سُننا چاہتی تھی ۔ خاص طور پر جب اِس تقریب میں آرمی چیف، سید عاصم منیر، بھی بنفسِ نفیس موجود تھے ۔وزیر اعظم صاحب نے یہ خطاب کاکول کی ملٹری اکیڈمی میں کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں کیا ہے۔ اِس پریڈ کو دیکھنے کے لیے کیڈٹس کے والدین بھی موجود تھے ، اعلیٰ عسکری قیادت بھی اور کئی غیر ملکی سفرا بھی ؛ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سنہری ترین موقع تھا جہاں اپنے خطاب کے ذریعے وزیر اعظم پاکستان اپنی، اپنے عسکری اداروں اور اپنے25کروڑ عوام کے ذہنوں میں موجود باتوں کو اقوامِ عالم تک پہنچا سکتے تھے ۔ جناب شہباز شریف نے کھلے اور غیر مبہم الفاظ میں کہا: ’’(۱) سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہُوئے (بھارت) نے اگر پاکستان کا پانی روکا تو پوری قوت سے جواب دیں گے کہ پانی ہماری لائف لائن ہے (۲) کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں رہنی چاہیے ۔ پاکستان کی مسلح افواج ہر قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مکمل طورپر تیار ہیں (۳)پاکستان کے25کروڑ عوام متحد ہیں اور اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں (۴)پاکستان دہشتگردی کی ہر شکل کی مذمت کرتا ہے ۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کرتے ہُوئے اپنے90ہزار شہری کھوئے ہیں ۔اور دہشتگردوں اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 600ارب ڈالر کا بھاری مالی نقصان برداشت کیا ہے (۵)پاکستان یو این او کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہوتے ہُوئے دُنیا بھر میں امن کا خواہاں ہے اور دُنیا بھر میں امن ہی امن چاہتا ہے (۶)پہلگام واقعہ پر بھارت نے پاکستان پر بے بنیاد اور بِلا ثبوت الزام لگائے ہیں ۔ پاکستان ایک ذمے دار ریاست ہونے کے ناتے(اِس واقعہ کے حوالے) سے غیر جانبدارانہ عالمی تحقیقات کے لیے تیار ہے ؛ تاہم ( بھارتی ) دھمکیاں ناقابلِ قبول ہیں ۔ جس نے بھی کاکول میں جناب شہباز شریف کا مذکورہ خطاب دیکھا اور سُنا ہے، شہادت دے گا کہ اُن کا خطاب اور اُن کی باڈی لینگوئج باکمال تھی ۔ خطاب میں جرأت ، جوش ، کمٹمنٹ اور ولولہ کے عناصر باہم گھل مل گئے تھے۔ وزیر اعظم نے اِس مناسب ترین موقع پر افغانستان ، مسئلہ کشمیر اور فلسطین و غزہ کا ذکر بھی کیا ۔ افغانستان بارے اُنھوں نے ایک بار پھر دُنیا کو باور کرایا ہے کہ اِس ملک میں مقتدر طالبان کے زیر سایہ الخوارج کے دہشت گرد پنپ رہے ہیں اور پاکستان پر حملہ آور ہیں ۔ افغانستان ہمسایہ ملک ( شکر ہے شہباز شریف نے طالبان کے افغانستان کو ’’برادر ہمسایہ ملک ‘‘ نہیں کہا) ہونے کے ناتے ، پھر بھی، پاکستان کے نائب وزیر اعظم ، اسحاق ڈار، نے حال ہی میں افغانستان کا دَورہ کیا ہے اور اُنہیں ہوش کے ناخن لینے کا کہا ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے اپنے خطاب میں مقبوضہ کشمیر اور زیر استبداد کشمیریوں کا ذکر جس عزم بالجزم کے ساتھ کیا ہے، اُمید ہے یہ پیغام ایک بار پھر مودی تک پہنچ گیا ہو گا ۔ غاصب و ظالم اسرائیل کے ہاتھوں دُکھ اُٹھانے والے اہلِ غزہ کا ذکر جس درد مندی کے ساتھ شہباز شریف نے کیا ہے، اِس کے بعد بھی کیا جماعتِ اسلامی اینڈ کو یہ گلہ کریں گے کہ شہباز حکومت غزہ کے مظلوم و مقہور شہریوں کے ساتھ پورے قد کے ساتھ نہیں کھڑی ہے؟ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ ایسے حساس موقع پر جماعتِ اسلامی بھارت کے خلاف مظاہرے کرنے کے بجائے غزہ کے حق میں بازُو لہرا رہی ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان ، جناب شہباز شریف ، نے تو اپنے تازہ ترین خطاب کے توسط سے اپنے ارادے (بھارت پر) ظاہر کر دیئے ہیں۔ اِس خطاب کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان جنگ نہیں ، امن چاہتا ہے ۔ مگر پاکستان کی آرزُوئے امن کو کمزوری سمجھنے والوں کو اپنی بھیانک غلطی کا بھگتان بھگتنا پڑے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اگر بھارت کی جانب سے پاکستان پر کسی بھی شکل میں جنگ مسلّط کی جاتی ہے تو پاکستان اپنی پوری قوت کے ساتھ جواب نہ دے۔ پاکستان کی ظاہری و باطنی امن پسندی کے باوصف بھارت مگر اپنی بد باطنی پر عمل کرنے سے باز آتا نظر نہیں آ رہا ۔ اُسے مگر یہ آزمایا ہُوا آموختہ یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ فریقین کے لیے یکساں تباہی کے کئی سندیسے لے کر آتی ہے ۔نریندر مودی کے بھارت کو یقین نہیں آتا تو وہ غزہ ، سوڈان اور یوکرین کی حالیہ و جاری جنگوں کی تباہکاریوں پر ایک نظر ڈال لے اور اپنی سات پہاڑی ریاستوں (Seven Sister States) میں جاری شدید علیحدگی پسندی کی کئی تحریکوں اور مشرقی پنجاب کے خالصتانیوں کے دلوں میں بھارت مخالف اُبلتے جذبات پر بھی ایک نگاہ ڈال لے تو اُسے اپنے باطن میں لگی آگ کا اندازہ ہو جائے گا ۔ مگر بھارت میں مقتدر بی جے پی کا خیال ہے کہ وہ ہندوتوا کی بنیاد پر اپنی مسلم دشمنی کی آگ بھڑکا کر پاکستان کو حسبِ تمنا نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ یہ اُس کی خام خیالی ہے ۔کہا جارہا ہے کہ جب تک بھارت میں تین بڑے شیطان ( اُجیت ڈووَل، راجناتھ سنگھ ، امیت شاہ) اقتدار میں ہیں، بھارت کی پاکستان دشمنی ختم نہیں ہوگی ۔ اِن تینوں پر نریندر مودی کی سیاست حاوی ہے ۔ مودی اِن تینوں کا گرو اور سرپرست ہے۔ مودی کی سیاست اور اقتدار محض پاکستان و اسلام دشمنی کی اساس پر قائم ہے ۔ اُس کی مسلم دشمنی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اُس کے اشارے پر’’ خُلد آباد‘‘ میں واقع مشہور مغل بادشاہ، اورنگزیب عالمگیر، کی صدیوں پرانی قبر اکھاڑنے کے مطالبے کیے جا رہے ہیں ۔ ہم نے تو سمجھا تھا کہ ایل کے ایڈوانی ( جس نے بھارت میں صدیوں پرانی و تاریخی ، بابری مسجد، شہید کروائی تھی) ہی بھارت کا آخری مسلم دشمن لیڈر ہے مگر مذکورہ بالا چاروں دشمن اُس سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں ۔یہ چاروں پاکستان اور نظریہ پاکستان کے دشمن ہیں ۔ اِسی لیے جب 15پریل 2025کو جنرل عاصم منیر نے اپنے تاریخی خطاب میں نظریہ پاکستان کا بلند آہنگی سے ذکر کیا تو بھارت میں اِنہی چاروں نیتاؤں اور اِن کے پیروکاروں کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچی ۔ یہ اپنے خبثِ باطن کی وجہ سے پہلگام کے مبینہ واقعہ کی نیوٹرل انکوائری کروانے کی شہباز شریف پیشکش قبول نہیں کریں گے ۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل