Monday, April 28, 2025
 

فکر ناٹ

 



وہی ہوا جس بات کی توقع تھی ۔ جیسے ہی دو منحوس سیارے ایک دوسرے کے مدمقابل آئے، پہلگام واقعہ ہو گیا ۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے آل پارٹیز کانفرنس میں تسلیم کیا ہے کہ یہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی ہے لیکن اس کے باوجود بھارت نے اس دہشت گردی کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیا ہے ۔ جب کہ مقبوضہ کشمیر کے چپے چپے پر بھارتی فوج تعینات ہے ۔ جس کی تعداد کم ازکم 8لاکھ ہے ۔ انڈین میڈیا نے رائے عامہ کو اس قدر مشتعل کر دیا ہے کہ بھارتی انتہاپسند چاہتے ہیں کہ بھارت فوری طور پر پاکستان پر حملہ کردے ۔ سب سے اہم اور خطرناک بات یہ ہے کہ اس معاملے پر عالمی رائے عامہ بھی بھارت کی ہمنوا بن گئی ہے ۔ سب سے پہلے امریکا کو لے لیں ۔امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکا پہلگام ’’دہشت گردی‘‘ کے معاملے پر بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ اور ہم بھارت کے ساتھ مل کر ان ’’دہشت گردوں ‘‘کو کیفر کردار تک پہنچا کر رہیں گے ۔ امریکا کی اس معاملے پر بھارت کی حمایت کا مطلب یہ ہے کہ باقی دنیا بھی بھارت کا ساتھ دے گی۔ حالانکہ خود پاکستان کا دہشت گردی سے متاثر ہ ملکوں میں دوسرا نمبرا ہے ۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جب سابق امریکی صدر بل کلنٹن ماضی میں بھارت کے دورے پر پہنچے تھے تو مقبوضہ کشمیر میں 36سکھوں کا قتل ہو گیا تھا۔ اور اب جب امریکی نائب صدر بھارت کے دورے پر تھے تو اس کے دوران پہلگام میں سیاحوں پر حملہ ہوگیا ۔ نومبر2008میں ممبئی دہشت گردی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بھارت نے پہلگام حملے کو جواز بنا کر سند ھ طاس معاہدہ معطل کردیا ہے ۔ پاکستان جو اس وقت پانی کی بدترین قلت کا شکار ہے، ایک طرح سے بھارت نے یہ معاہدہ معطل کرکے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے ۔ پاکستان جو زراعت اور پینے کے پانی کی شدید قلت کا شکار ہے، بھارت کی اس سازش کے نتیجے میں بدترین غذائی قلت کا شکار ہو سکتا ہے ۔ غذائی اشیاء انتہائی مہنگی اور نایاب ہو سکتی ہیں ۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو صرف معطل ہی نہیں کیا بلکہ عملی طور پر خط لکھ کر پاکستان کو آگاہ بھی کردیا ہے ۔ سب سے افسوسناک اور پریشان کن امر یہ ہے کہ دنیا میں کسی نے بھی اس عمل پر بھارت کی مذمت نہیں کی ہے ۔ اب دیکھتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ ہے کیا؟پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں یہ معاہدہ ستمبر1960کو عمل میں آیا۔ اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور پاکستان کے سربراہ جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے ۔ معاہدے کی شرائط کے تحت بھارت اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل یا ختم نہیں کر سکتا ۔ انڈیا کو دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے ۔ بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان دریاؤں کے بہاؤ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ برطانوی اخبار کی ایک رپورٹ نے خبردار کیا ہے کہ ایٹمی جنگ نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہوگی جو 15کروڑ فوری ہلاکتوں اور 3ارب افراد کی بھوک سے موت کا باعث بن سکتی ہے ۔ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی وار ہیڈ ز رکھتے ہیں ۔ یونیورسٹی کولو راڈو کے پروفیسر برائن ٹون کی تحقیق کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ 5سے 15کروڑ افراد کی فوری ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے ۔ شہر تباہ ہو جائیںگے ۔ زخمیوں کو امداد نہ ملے گی۔ اور بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر منہدم ہو جائے گا۔ یہ تباہی جنوبی ایشیاء تک محدود نہیں رہے گی۔ اس کے اثرات ساری دنیا پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ پروفیسر نے خبردار کیا کہ بھارت اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیار برفانی دور جیسے حالات پیدا کر سکتے ہیں ۔ انھوں نے زور دیا کہ یہ صرف بھارت اور پاکستان کا مسئلہ نہیںبلکہ پوری دنیا کا بحران ہے ۔ اس لیے فکر ناٹ۔۔۔۔ ۔ کیونکہ جنگ کے نقصانات سے پاکستان اور بھارت دونوں کے پالیسی ساز بخوبی آگاہ ہیں، ویسے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کشیدگی کا حل نکال لیں گے ، انھیں کسی طرح کی تشویش نہیں کہ ایٹمی یا کسی طرح کی جنگ ہو سکتی ہے ۔ پاکستان بھارت بحران کے حوالے سے فوری اہم تاریخیں 30اپریل۔یکم مئی سے 6۔5۔4۔3 مئی ہیں ۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل