Loading
پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے بادل بدستور منڈلا رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہونگے حالات کیا ہونگے۔ مودی پر جنگ کا بھوت سوار ہے۔ پاکستان تیار ہے۔ پاکستان کے ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار اور پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے اس ساری صورتحال پر ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا ہے۔ یہ ایک اہم پریس کانفرنس تھی۔ میری رائے میں یہ پریس کانفرنس عالمی دنیا کے لیے تھی۔ پاکستان نے اپنا موقف اس پریس کانفرنس کے ذریعے دنیا کے سامنے رکھا۔ لیکن اگر میں دیکھوں کہ اس پریس کانفرنس سے بھارت اور عالمی دنیا کو کیا پیغام دیا گیا۔ ایک اہم پیغام جو اس پریس کانفرنس سے ہم بیرونی دنیا کو دینا چاہتے تھے وہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں جب اسحاق ڈار صاحب نے کہا کہ 28مئی 1998 کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان روایتی جنگوں کا باب بند ہوگیا ہے، اب دونوں ملک نیوکلئیر طاقتیں ہیں اور یہ حقیقت سامنے رکھ کر جنگ کرنا ہوگی۔ یہ پیغام تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اب کوئی روایتی جنگ نہیں ہو سکتی۔ روایتی ہتھیاروں کی جنگوں کا دور ختم ہوگیا ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ لمبی جنگ لڑنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ جنگ کے پاکستان کی پاس جو آپشن ہیں ان میں یہ آپشن موجود نہیں ہے۔واضح پیغام تھا کہ جب ہم ایٹمی طاقت بن گئے تو ہم نے روائتی جنگ کا آپشن ختم کر دیا تھا۔ اب ایٹمی طاقت ہے اور دفاع میں وہ ایک پہلا آپشن ہے۔ اسی لیے اس پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی موجود ہے۔ اور ملک پر حملہ میں وہ کوئی بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔ اس طرح دنیا کو واضح پیغام دیا گیا کہ اگر ہم پر حملہ کیا گیا تو جواب ایٹمی بھی ہو سکتا ہے۔ بھارت پاکستان کے ساتھ روائتی اور طویل جنگ لڑنا چاہتا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت میں روایتی جنگ شروع رہے۔ جیسے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر سے پہلے گولہ باری کئی سال سے جاری ہے۔ کہیں ہم نے گولہ مارا۔ کہیںانھوں نے گولہ مارا۔ اس طرح ایک لمبی محدود جنگ شروع کی جائے۔ انٹرنیشنل بارڈر خاموش رہیں، لائن آف کنٹرول پر جنگ کی جائے۔ کارگل اس کی ایک مثال ہے جب وہاں محدود جنگ ہی ہوئی، جنگ صرف کارگل تک محدود رہی۔ بھارت ایسی ہی جنگ چاہتا ہے۔ لیکن شائد پاکستان اس کے لیے اس بار تیار نہیں، پاکستان کی جنگی ڈاکٹرائن بدل گئی ہے۔ نئی ڈاکٹرائن میں اگر ہم پر حملہ ہوا تو ہم نیوکلیئر اور دیگر تمام آپشن فوری استعمال کریں گے۔ ہمارا جواب غیر روایتی بھی ہوگا۔ ہم اس بات کے پابند نہیں کہ انھوں نے روائتی حملہ کیا ہے تو ہم بھی روائتی جواب دیں۔ ہم ہر جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے اس کی تیاری کر لی ہے۔ اور دنیا کو معلوم ہے کہ ہم اس دفعہ بھارتی جارحیت برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں ۔ شائد اسی پیغام نے جنگ کو اب تک روکا ہوا ہے۔ آ ج پاکستان کا ایٹمی پروگرام دونوں ممالک کے درمیان امن کا پیغام ہے۔ بھارت کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام نے امن پر مجبور کیا ہوا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریند ر مودی نے تین دن تک دہلی میں سیکیورٹی کے متعلق کئی اہم اجلاسوں کی صدارت کی ہے۔ بھارتی وزیر دفاع نے بھی بھارتی بری، بحر ی اور ہوائی افواج کے سربراہان کے ساتھ کئی اجلاس کیے ہیں۔ بھارتی نارتھ کمانڈ کے کمانڈر کو تبدیل کیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ ان کا موقف ہے کہ بھارت جنگ کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے انھیں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ بھارت کو جنگ کے لیے تیار کمانڈر چاہیے تھا۔ نئے کمانڈر کے جانے سے حالات نہیں بدلے۔ اتنے اجلاسوں کے بعد کہا گیا کہ تمام افواج کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔ وہ حملے کے لیے وقت اور مقام خود طے کریں گی۔ اس اعلان کے بعد جنگ کا ماحول بن گیا۔ اسی لیے پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے آدھی رات کو قوم کو بھارتی حملہ کے خطرہ سے آگاہ کیا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس رات بھارت کے چار رافیل طیاروں نے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ لیکن پاکستان کے جے ایف 17تھنڈر طیاروں نے ان کو روکا۔ میں سمجھتا ہوں یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان جاگ رہا تھا، ہماری ائیر فورس تیار تھی، انھیں موقع نہیں ملا۔ لیکن بھارت کو یہ بھی پیغام تھا کہ جواب میں میزائیل چلا دیے جائیں گے۔ شائد جنگی جہازوں کو میزائیلوں کا نشانہ بنایا جائے، اس لیے وہ پاکستان نہیں آئے۔ یہ 2019 نہیں ہے۔ اب جنر ل عاصم منیر کسی اور موڈ میں ہیں، یہی موڈ جنگ کو روکے ہوا ہے۔ پاکستان میں فوج اور سول حکومت ایک پیج پر ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کو وزیر اعظم نے اپنا قومی سلامتی کا مشیر لگا دیا ہے۔ یہ بھی واضح پیغام ہے کہ ہم جنگ کے لیے تیار ہیں۔ اب وہ جہاں آئی ایس آئی کی کمانڈ کر رہے ہیں وہاں حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر بھی ہیں۔ بات صاف ہے، ہوگا وہی جو طے ہے۔ کوئی دوسری رائے کا کوئی وجود نہیں۔ ویسے بھی ریٹائرڈ افراد قومی سلامتی کے مشیر لگانے کا تجربہ کوئی خاص کامیاب نہیں رہا۔ جہاں تک بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کی بات ہے۔ یہ بات اب پاکستان نے عالمی سطح پر شروع کی ہیں۔ اس پر دنیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کافی محنت کرنی ہوگی۔ بھارت کو بھی اپنے موقف پر دنیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے خطہ میں جنگ کا ماحول بنانا پڑتا ہے۔ اسے اندازہ ہے کہ جب وہ جنگ کا ماحول بناتا ہے تو دنیا اس کی بات سنتی ہے۔ چاہے وہ جھوٹ ہی بولے لیکن جنگ روکنے کے لیے اس کا جھوٹ بھی سنا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بلوچستان میں بھارت کی مداخلت روکنے کے لیے پاکستان کو بھی جنگ کا ماحول بنانا ہوگا۔ ہمیں بھی یہی ماحول بنانا ہوگا کہ اگر بھارت نے بلوچستان میں مداخلت نہیں روکی تو ہم جنگ شروع کر دیں گے۔ دنیا اگر جنگ سے کم بات نہیں سنتی تو کیا جنگ کا ماحول ہمیں بھی بنانا ہوگا۔ دنیا کو پاکستان اور بھارت کے معاملات سے کوئی خاص غرض نہیں۔ اگر معاملہ ایٹمی نہ ہو۔ اگر دو ممالک روائتی جنگ لڑیں تو دنیا کو کوئی غرض نہیں۔ لیکن کیا ہم یہ موقف لے سکتے ہیں کہ اگر بھارت نے بلوچستان میں مداخلت بند نہ کی تو پھر ایٹمی جنگ ہو گی۔ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ ایٹمی طاقت دفاع میں استعمال کرنے کا موقف تو دنیا مانتی ہے۔ لیکن پہلے استعمال کرنے کا موقف کوئی نہیں مانے گا۔ اسی لیے بھارت جانتا ہے۔ لیکن بلوچستان میں بھارتی مداخلت کو روکنے کے لیے جنگ کا ماحول ہی بنانا ہوگا۔ اس سے کم پر بھارت بھی نہیں مانے گا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل