Sunday, June 23, 2024
 

ورلڈ کپ میں شرمناک شکست: صرف باتیں نہیں عملی اقدامات کی ضرورت

 



عاقب قریشی سپورٹس جرنلسٹ ہیں، کرکٹ پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں،گرین شرٹس جب بھی کرکٹ کے کسی محاذ پر ایکشن میں دکھائی دیتے ہیں تو ان کا جوش وخروش عرو ج پر پہنچ جاتا ہے، اس بار بھی ایسا ہی ہوا، ٹی20 ورلڈکپ کے دوران بھی عاقب قریشی کا جوش وجذبہ اور ولولہ دیکھنے کے لائق تھا،پاکستانی ٹیم کی تعریف کرتے کرتے ان کی زبان نہ تھکتی تھی تاہم بابر الیون جب بھارت سے بری طرح شکست سے دو چار ہوئی تو ان کی چیخ وپکار سوشل میڈیا پر سنائی دی۔

عاقب قریشی کے مطابق کون کہتا ہے کہ تم جیتو یا ہارو، ہمیں تم سے پیار ہے،اب میں آپ کو بتا دوں کہ ہمیں تم سے پیار نہیں ہے ،اگرتم اسی طرح بار بار ہارو گے تو ہم تم سے کیوں پیار کریں گے، انہوں نے کرکٹرز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تم سے نہیں بلکہ پاکستان سے پیار ہے۔یہ عاقب قریشی ہی نہیں بلکہ کرکٹ کا ہردیوانہ اور مستانہ پاکستان ٹیم کی ناقص کارکردگی کو خاصی تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے، کوئی کہتا ہے جس طرح کی پرفارمنس پاکستانی ٹیم نے ورلڈ کپ کے دوران دکھائی ہے، اس سے اچھی کارکردگی تو ہماری کلب لیول کی ٹیم بھی دکھا سکتی ہے، اگر کھلاڑیوں کو کرکٹ کھیلنا نہیں آتی تو خدا کے لئے کرکٹ کھیلنا بند کر دو۔

کرکٹ شائقین ہی نہیں سابق ٹیسٹ کرکٹرز بھی پاکستانی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی پر خاصے دلبرداشتہ ہیں، پاکستانی ٹیم کے سابق کھلاڑی احمد شہزاد نے ٹیم کو کھری کھری سناتے ہوئے کہا کہ جو حقدار ٹیمیں ہیں وہ سپر 8 کیلئے کوالیفائی کر چکی ہیں۔انہوں نے پاکستانی ٹیم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ، یہ مت سوچیں کہ قدرت کا نظام ان کیلئے بھی کام کرتا ہے جو خود مستحق نہیں ہیں اور اپنی اصلاح کیلئے تیار نہیں ہیں۔

راولپنڈی ایکسپریس کے نام سے مشہور فاسٹ بولر شعیب اختر کی اداسی ان کے ایکس پر شیئر کیے گئے ایک لائن کی پوسٹ سے ظاہر ہوئی۔ شعیب اختر نے درد بھرا پیغام لکھا، ورلڈ کپ میں پاکستان کا سفر اختتام پذیر ہوا۔سابق کپتان محمد حفیظ نے تو پاکستانی کھلاڑیوں کو قربانی کے بکرے تک قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر انہوں نے بکروں کے ایموجیز ڈال کر پاکستان کرکٹ کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے لکھا کہ قربانی کے جانور حاضر ہوں۔ پاکستانی ٹیم پہلے ہی بھارت سے ہار کر پاکستان میں زبردست ٹرول ہوئی۔ اور اب عالمی کپ سے باہر ہونے پر تو سوشل میڈیا پر جیسے مزاحیہ میم کا سیلاب آگیا ہے۔

پاکستانی کرکٹ شائقین ٹیم کے کھلاڑیوں کا الگ الگ انداز میں مذاق اڑا رہے ہیں، پاکستانی ٹیم کی ماضی قریب کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ہی کئی بین الاقوامی کرکٹرز جن میں سنیل گواسکر، برائن لاروا، میتھیو ہیڈن، ایرون فنچ، ٹام موڈی جیسے بڑے نام شامل تھے، انہوں نے پہلے ہی پیش گوئی کر دی تھی کہ وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی فائنل فور ٹیموں میں پاکستان کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔

نیویارک میں 9 جون کے دن پاکستانی ٹیم اپنے روایتی حریف بھارت سے جس طرح ہاری اس نے ہر پاکستانی کو رلا دیا اور دنیائے کرکٹ کے تبصرہ نگاروں کو بھی حیرت زدہ کر دیا ، کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ کوئی ٹیم اس قدر بری پرفارمنس بھی دے سکتی ہے۔ ’’قومی ٹیم‘‘ محض ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور ہمارے نام نہاد شاہین تاش کے پتوں کی طرح بکھرتے چلے گئے۔ داد دینی پڑے گی بھارتی کھلاڑیوں کو جنہوں نے اتنے چھوٹے سکور کا بھر پوردفاع کیا اور کسی افراتفری اور مایوسی کا شکار ہونے کی بجائے اپنا فوکس صرف اور صرف جیت پر مرکوز رکھا،

پورے میچ کے دوران بلیو شرٹس کی باڈی لینگوئج مثبت رہی جو ان کی جیت کا سبب بنی۔اس شکست پر مجھے کوئی تعجب نہیں ہوا کیونکہ میرا ماننا ہے کہ جو پوری قوم کی حالت ہے وہی کرکٹ کی بھی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ قوموں کا عروج اور زوال ان کے اجتماعی رویوں پر ہوتا ہے۔ جب قوموں پر زوال یا عروج آتا ہے تو وہ زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم ہر طرح سے زوال پذیر ہیں تو اس کا اثر کرکٹ اور کرکٹرز پر بھی لازمی پڑے گا۔ آپ ان گیارہ لڑکوں کو الگ تو نہیں کر سکتے ان کھلاڑیوں کا مزاج بھی وہی شکست خوردہ، منتشر اور کنفیوزڈ ہے جیسا کہ باقی پوری ’’قوم‘‘ کا ہے۔

شنید ہے کہ امریکہ کے بعد بھارت ٹیم سے شکست اور اب کرکٹ ورلڈ کپ سے بھی باہر ہونے کے بعد کھلاڑی خاصے دلبرداشتہ ہیں اور میگا ایونٹ میں ناقص اور مایوس کن کارکردگی دکھانے پر قوم سے شرمندہ بھی ہیں، کاش پاکستان کرکٹرز اب قوم سے شرمندہ ہونے کی بجائے پہلے ہی اپنا قبلہ درست کر لیتے، کاش قومی کرکٹرز یہ سوچتے ہیں کہ غربت، مہنگائی ، بے روزگاری کے شکار 25 کروڑ پاکستانی شائقین تم سے کیسی کسی امیدیں لگائے بیٹھے تھے، راتوں کو جاگ جاگ کر تمہارے لئے دعائیں کرتے رہے، یہ وہی کرکٹ شائقین ہیں جب تم جیت کر آتے ہو  تو یہ پنے تمام دکھ اور غم بھول کر تمہیں پلکوں پر بٹھاتے ہیں، تمہاری ایک جھلک دیکھنے کے لئے کئی کئی گھنٹے انتظار کرتے ہیں۔

کاش تم نے آپس میں اختلاف پیدا کرنے سے پہلے سوچا ہوتا کہ ٹیم کی کامیابی پورے ملک کو کس قدر اور کس حد تک خوشیاںدے سکتی تھی، کاش تم نے سوچا ہوتا کہ ماضی میں تم کیا تھے اور اب کیا ہو، کاش تم نے سوچا ہوتا کہ یہ کرکٹ ہی ہے جس نے تمہیں غربت اور گمنامیوںکے اتھاہ اندھیروں سے سے نکال کر شہرت کی ان بلندیوں کے راستوں پر ڈال دیا جس کا عام پاکستانی صرف اور صرف تصور ہی کر سکتا ہے۔ کاش تم نے یہ سوچا ہوتا کہ تمہاری ناکامی دنیا بھر میں موجود اوورسیز پاکستانیوں کو کتنا مایوس کرے گی اور ان کے لئے مستقبل میں کتنے مسائل پیدا کرے گی اور غیروں سے انہیں کتنے طعنے سننے کو ملیں گے۔ کرکٹرز یہ بھی نہ بھولیں ہم انہیں اپنے سر اور آنکھوں پر بٹھاتے ہیں لیکن آپ نے بدلے میں کیا دیا۔ آپ پروفیشنل کھلاڑی ہیں بھاری معاوضے وصول کرتے ہیں کیا قوم حق بجانب نہیں کہ آپ سے بہترین مقابلے کی توقع رکھے اور آپ کا فرض نہیں کہ اپنا بہترین کھیل پیش کریں۔

کہتے ہیں کہ جیت کے کئی وارث ہوتے ہیں اور ہار کا کوئی والی وارث نہیںہوتا،ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی شرمناک شکستوں کے بعداب بابر الیون میں بڑی خامیاں بھی نظر آنا شروع ہو گئی ہے، کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی ٹیم کی ورلڈ کپ میں شکست کی بڑی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ آپس میں دھڑہ بندی اورناقص سلیکشن قرار دی جا رہی ہے، کپتانی کے تنازعہ نے دوستوں کو حریفوں میں بدل دیا بہت سے کھلاڑی صرف ضرورت کے مطابق بات چیت کرتے رہے، کچھ عرصہ قبل تک بابر اعظم اور شاہین آفریدی کے درمیان ایسی دوستی تھی کہ ’کپتان بدلنے کا سوچا بھی نہ جا سکتا تھا تاہم جب بابراعظم کی جگہ شاہین شاہ آفریدی کو کپتان بنایا گیا تو ان کے تعلقات میں دراڑ پیدا ہوگئی۔بابر اعظم انفرادی طور ایک اچھا کھلاڑی ضرور ہے لیکن وہ میچ ونر نہیں اور نہ ہی اس نے کبھی کوئی میچ جتوایا اس کا مقابلہ ویرات کوہلی سے کرنا مناسب نہیں۔ بابر قطعی طور پر کیپٹن مٹیریل ہے ہی نہیں وہ نہ تو میڈیا کو ہینڈل کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے کھلاڑیوں میں کوئی جیت کا جذبہ اور تڑپ پیدا کرنے کا اہل ہے۔

پاکستان کرکٹ کے گزشتہ 6 ماہ کے دوران صرف دو بار قیادت ہی تبدیل نہیں کی گئی بلکہ چار سال قبل ریٹائرمنٹ لینے والے محمد عامر اور عماد وسیم کو ٹی 20 ورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ بھی بنایا گیا۔ اس سے قبل انہیں نیوزی لینڈ، آئرلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ سیریز بھی کھلائی گئیں، گوکہ اس میں عماد وسیم کو مناسب مواقع نہیں دیے گئے مگر سینئر فاسٹ بولر محمد عامر بھرپور مواقع ملنے کے باوجود اپنی واپسی کو یادگار نہ بنا سکے۔ورلڈ کپ 2023 کے اختتام کے بعد سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل تک پاکستان ٹیم نے 16 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے اور پی سی بی نے ان میچز کو ورلڈ کپ کی تیاری سے تعبیر کیا، لیکن اس سے ٹیم کی کیا تیاری ہوئی، یہ ہمیں میچ کے نتائج سے پتہ چلتا ہے جس میں سے صرف 5 میچ ہی جیت پائی ہے جب کہ 9 میچوں میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

یعنی قیادت کی تبدیلی بھی کچھ کام نہ کر پائی اور نتیجہ وہی دھاک کے تین پات یعنی شکست در شکست ہی رہا۔ پاکستان ورلڈ کپ کے گروپ اے میں شامل رہی اور گروپ کو ماہرین کرکٹ قدرے آسان کہہ رہے تھے، کیونکہ اس گروپ میں پاکستان کے علاوہ بھارت، امریکا، آئرلینڈ اور کینیڈا شامل تھیں، جو آن پیپر تو بہت ہی آسان، بلکہ دوسرے لفظوں میں گروپ کی دو بڑی ٹیموں پاکستان اور بھارت کے لیے حلوہ ہے۔ تاہم آئرلینڈ نے جس طرح حال ہی میں پاکستان کو تین میچوں کی سیریز میں ناکوں چنے چبوا دیے اور امریکا نے بنگلہ دیش کی ٹیم کو چاروں شانے چت کر کے سیریز جیتی ، تو اس کو دیکھتے ہوئے گروپ کو آسان نہیں بلکہ پاکستان کے لیے تو ڈیتھ گروپ ہی کہا گیا۔

شنید ہے کہ کھلاڑیوں کے مابین تلخ کلامی بھی ہوتی رہتی ہے۔ افسوس یہ کہ یہ ٹیم نہ تو کسی ٹارگٹ کو چیز کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ اپنے ہی بنائے اسکور کا دفاع کرنے کی اہل ہے۔ ڈسپلن اور پلاننگ کا بھی فقدان نظر آتا ہے اس صورتحال میں ان سے کیا امید کی جا سکتی تھی۔ صورتحال اس حقیقت سے مزید پیچیدہ ہے کہ ٹیم کے کئی سٹار کھلاڑی ایک ہی ایجنٹ کے ساتھ ہیں، جن کے سابق کرکٹرز سے بھی قریبی تعلقات ہیں،کپتانی سے ہٹائے جانے کے بعد بابر کا بورڈ سے رابطہ تقریباً منقطع ہوگیا تھا لیکن نئی انتظامیہ کے آنے سے ان میں بہتری آئی۔صرف ایک سیریز کے بعد شاہین کو کپتانی سے ہٹانے اور میڈیا پر جعلی بیان جاری کرنے نے انہیں شدید ناخوش کیا۔

اگرچہ انہیں غیر رسمی طور پر نائب کپتانی کی پیشکش کی گئی تھی، لیکن بورڈ نے باضابطہ طور پر اس سے انکار کر دیا، جس سے ان کی ناراضگی بڑھ گئی۔ عماد وسیم اور محمد عامر کو بابر پسند نہیں کرتے لیکن انہیں ریٹائرمنٹ واپس لینے کے بعد ٹیم میں شامل کیا گیا جس سے ٹیم کا کمبی نیشن متاثر ہوا۔ دریں اثنا شاداب خان اور افتخار احمد کو ناقص کارکردگی کے باوجود مواقع ملتے رہتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو ورلڈ کپ سے قبل ان مسائل کا علم تھا لیکن اس نے ایونٹ کی اہمیت کے پیش نظر فوری ایکشن نہ لینے کا انتخاب کیا۔ خود بورڈ کے اندر دھڑوں کی بھی اطلاعات تھیں، ممبران ایک دوسرے کے لیے دفاعی ڈھال کے طور پر کام کرتے رہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے قومی ٹیم میں بھی کلین اپ آپریشن کا عندیہ دیا ہے، ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد ٹیم میں اہم تبدیلیاں متوقع ہیں جن میں کچھ حیران کن فیصلے بھی شامل ہیں۔پی سی بی ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیم کی پاکستان واپسی پر چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ “آپریشن کلین اپ” کا آغازکریں گے، ٹیم کے آؤٹ آف فارم کھلاڑیوں کی چھٹی ہو گی، مڈل آرڈر بلے باز افتخار احمد، اعظم خان، صائم ایوب، شاداب خان اور عثمان خان کو ٹیم میں جگہ برقرار رکھنے کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ ڈومیسٹک پرفامرز کو اب پاکستان کرکٹ ٹیم میں موقع دیا جائے گا۔

کپتان بابر اعظم کو بھی ٹیم کی ناقص کارکردگی پر جواب دہ ہونا پڑے گا۔علاوہ ازیں ٹیم مینجمنٹ میں بھی بڑی تبدیلیوں کا امکان ہے، سینئر ٹیم منیجر اور سلیکٹر وہاب ریاض کو بھی اپنی جگہ بچانے کا چیلنج درپیش ہے جبکہ ہیڈ کوچ گیری کرسٹن ٹیم کی واپسی کے بعد چیئرمین پی سی بی سید محسن نقوی کو ورلڈ کپ میں ٹیم کی کارکردگی پر مکمل رپورٹ پیش کریں گے۔ چیئرمین پی سی بی بھارت سے میچ ہارنے کے بعد ٹیم میں بڑی سرجری کا عندیہ دے چکے ہیں، قومی کرکٹ ٹیم کے سینٹرل کنٹریکٹس کا بھی ازسرِنو جائزہ لیا جائے گا، ناقص کارکردگی کے حامل کھلاڑیوں کی سینٹرل کانٹریکٹ میں تنزلی بھی ہو سکتی ہے۔

پاکستان سے ہاکی اور سکواش تو پہلے ہی ختم ہوچکے تھے اب کرکٹ بھی ناکامیوں اور شکستوں کے بھنور میں پھنستی جا رہی ہے، جس کی بہت سی وجوہات میں ایک بڑی وجہ قومی ٹیم کی سلیکشن میں ذاتی پسند نا پسند اور صوبائیت بھی ہے۔ موجودہ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کو فور ایکشن لینا چاہیے اور سلیکشن کمیٹی کو ختم کر کے نئی کمیٹی بنائے جانے کی اشد ضرورت ہے،چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے نگران وزیر اعلی پنجاب کی حیثیت سے خاصا نام کمایا ہے، وفاقی وزیر داخلہ کا اہم منصب بھی سنبھال کر اپنے عہدے کے ساتھ بھر پور انصاف کر رہے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب کرغزستان میں پاکستانی طالب علموں کو مقامی طلبا کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تویہ محسن نقوی ہی تھے جنہوں نے نہ صرف سب سے پہلے علامہ اقبال ایئرپورٹ لاہور پہنچ کر پاکستانی طالب علموں کا استقبال کیا بلکہ کرغزستان میں موجود ہزاروں طالب علموں کو پاکستان میں لانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ محسن نقوی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی ہیں، ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کی شرمناک پرفارمنس نے قوم کو خاصا مایوس کیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ محسن نقوی اپنے ماضی کے شاندار ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے کرکٹ کا قبلہ کب اور کیسے درست کرتے ہیں، اس کا شائقین کو شدت کے ساتھ انتظار رہے گا۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل