Loading
zabaanfehmi@gmail.com ہر بڑی زبان کی طرح اردو کی بھی یہ خوبی ہے کہ کسی ایک ہی چیز کے مختلف نام علاقے کے فرق سے رائج ہوتے ہیں یا ایک ہی نام کئی طرح بولا اور لکھا جاتا ہے۔ یہ وہ اختلاف ہے جس میں فطرت کی نیرنگی جیسا حُسن ہے۔ یاد رکھیں، فطر ت سادہ ہے مگر یک رنگی یا بے رنگی نہیں۔ ایسے ہی ایک مثال، ایک پکوان کا نام ہے:’تاہری‘۔ جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ نمکین مصالحہ دار چانول (عُرف چاول) ہر خاص وعام کی پسند ہیں۔ کچھ سال پہلے بھی خاکسار نے اس کے نام پر تحقیق کی کوشش کی جو اَدھوری رہی، مگر آج پھر اِرادہ کیا ہے تو کچھ نہ کچھ دریافت ہو ہی جائے گا (بہت سے موضوعات پر اِسی طرح فی البدیہ تحقیق وتحریر کرچکا ہوں)۔ ایسے معاملات میں علاقائی لہجوں اور بولی ٹھولی سے، بھرپور واقفیت کے بِنا، کوئی بات ٹھوک بجا کے لکھنا ناممکن ہے ;ہر بات لغات میں لکھی ہوئی نہیں ملتی۔ معلومات کا خزانہ اہل زبان کے سینے میں محفوظ ہوتا ہے۔ چانول (چاول) کے پکوان کی تعداد، ایک درجن سے زائد ہے۔ خُشکہ /اُبلے ہوئے چاول (مع ہلکا نمک مرچ /بغیر مصالحہ)، بگھرے ہوئے چاول (مسور یا اَرہَر کی دال کے ساتھ)، تاہری، بریانی (علاقائی اعتبار سے اور ترکیب کے لحاظ سے مختلف اقسام: سندھی، حیدرآبادی، بمبئی، میمنی، سادہ یعنی آلو والی بریانی، مرغ/چکن بریانی، بِیف بریانی، پلاؤ بریانی)، پلاؤ (وہی مسئلہ اختلافِ علاقہ وتہذیب: یخنی پلاؤ یعنی اصلی تُرک/اُزبِک پلاؤ، چٹاگانگ اور سلہٹ کا اَخنی پلاؤ (پلاؤ اور بریانی کی ملی جُلی کوئی چیز)، چناپلاؤ ۔یا۔چھولا پلاؤ، بُونٹ /ہولے پلاؤ، کابلی/افغان پلاؤ، سبزی پلاؤ، Rainbow rice، Chinese rice, Singaporean riceوغیرہ۔ یہ فہرست کا ایک معمولی حصہ ہے گویا پوری دیگ سے ایک چاول، جبکہ فقط خطہ ہند میں چاول سے تیارکردہ پکوانوں کی تعداد سَواسَوکے لگ بھگ ہے۔ اس ساری تفصیل سے قطع نظر، نمکین، مصالحے دار، ہلدی سے بنی ہوئی تاہری کا امتیاز یہ ہے کہ اس کے نام میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اسے کہیں تاہری، کہیں تیوہاری، کہیں تہری، کہیں تَہَری، کہیں طاہری تو کہیں طَہاری یا تَہاری کہا اور لکھا جاتا ہے۔ تاہری کی ترکیب میں کہیں آلو تو کہیں ’’بڑیاں‘‘ بھی شامل کی جاتی ہیں۔ (تاہری: ہندی اسم، مؤنث۔ علمی اردو لغت کے اندراج کے مطابق، چاول اور بڑیاں ملاکر پکائی ہوئی چیز ہے۔ اسی لغت نے ’تہری‘ کے ضمن میں بتایا کہ اردو اسم مؤنث ہے اور تعریف یہ کی کہ ’’ایک قسم کا کھانا جو چاولوں میں بَڑی یا گوشت ڈال کر پکاتے اور ہلدی کا رَنگ دیتے ہیں‘‘۔ ایک قسم کا طعام ہے کہ چاول اور بڑیوں سے بناتے ہیں، آج کل چاول اور آلو سے بھی پکاتے ہیں۔ بحوالہ ریختہ ڈکشنری آنلائن)۔ خدا جانے ’بڑیوں‘ سے چاول کا کیا تعلق ہے، ہم نے تو ’بڑیوں ‘ کا سالن ہی کھایا ہے۔ راجستھان سے آبائی تعلق کی حامل (ٹنڈو جان محمد، تحصیل ڈگری، ضلع میرپورخاص میں مقیم) ادیبہ ڈاکٹرساجدہ پروین قائم خانی نے ابھی کچھ دیر پہلے میرے خیال کی تائید کرتے ہوئے، بڑیوں کا ذکر کیا، اس کے سالن کو بھاجی بتایا، مگر تاہری کے وجود سے انکار کیا۔ محترمہ نے مارواڑی زبان کی بولی قائم خانی پر تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے۔ ہمارے گھرانے میں مٹر تاہری کا رِواج بھی ہے جبکہ بعض جگہ آلو مٹر تاہری بنتی ہے۔ تاہری کی ایک قسم آلو قیمہ تاہری بھی ہے یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے; یہ پکوان فقط انٹرنیٹ ہی پر دیکھا ہے، ورنہ چاول میں الگ سے قیمہ ڈال کر کھانا تو عام بات ہے۔ کسی نے ’مٹن تاہری‘ یعنی بکرے کے گوشت کی تاہری بھی بناکر ترکیب انٹرنیٹ پر پیش کی ہوئی ہے۔ میرے خیال میں ’بِیف تاہری‘ (گائے کے گوشت والی تاہری) بھی بنتی ہے۔ اور تو اور ’سبزی تاہری‘ مع انڈہ ایک مختلف پکوان ہے جبکہ ’’آلو پالک والی تاہری‘‘ بھی کسی نے ایجادکرلی ہے۔ حیدرآبادی تاہری کی ایک قسم درحقیقت ’چکن تاہری‘ (مرغ کے گوشت والی تاہری) ہے جس کی ترکیب آپ کو اِنٹرنیٹ سے مل جائے گی۔ اَیّو ماں! حائیدرابادی لوگاں بھی کیسی کیسی چیزاں ایجاد کرے جی؟؟ بعض لوگ اسی پکوان کو ’تیوہاری‘ کہتے ہیں۔ میرے تایا (میرے والد گرامی مرحوم کے پھوپھی زاد بھائی) راجستھان میں کچھ سال مقیم رہے تو اُن کی اور اُن کی اولاد کی زبان پر راجستھان کی بہت گہری چھاپ نظر آتی تھی;وہ تاہری کو ہمیشہ تیوہاری ہی کہا کرتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس گھرانے کا بنیادی یا سابق تعلق ہاپڑ، میرٹھ سے تھا۔ ’’تاہری‘‘ کا اندراج ان لغات میں بالکل بھی نہیں ملتا: ہندی اردو لغت از راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ مع مقدمہ و اضافہ از قدرت نقوی (اشاعت ِ جدید)، رُوہیل کھنڈ اُردو لغت، مؤلفہ رئیس رامپوری، لُغاتِ کشوری مؤلفہ تصدق حسین رضوی، نو(۹) زبانی لغت مرتبہ پروفیسرڈاکٹر عبدالعزیز مینگل، (یعنی تاہری شاید اُردو گو طبقے ہی کا پکوان ہے)، فیلن کی ہندوستانی لغت[Hindustani-English Law and Commercial Dictionary by S.W.Fallon, Ph. D. Halle: 1879]۔اس سے قطع نظر، اردو لغت بورڈ کی مختصر اُردو لغت (جلداوّل) میں تاہری کا ذکر، یوں شامل ہے: ’’ایک قسم کا طعام جو چاول اور بَڑیوں سے بناتے ہیں، آج کل چاول اور آلو سے بھی پکاتے ہیں‘‘۔ اسی پکوان کے ایک دوسرے نام ’تہری‘ کا اندراج دیگر لغات میں نہ سہی، ریختہ ڈکشنری (آنلائن) میں موجود ہے جو خود کئی مستند وغیرمستند مآخذ کا مجموعہ ہے۔ یہاں یہ عبارت درج کی گئی ہے: ’’وہ چاو ل جس میں مسالہ (مصالحہ) پڑا ہو۔ اس میں بڑیاں یا آلو وغیرہ بھی ڈالتے ہیں ; تاہری۔ تَہْری سے متعلق کہاوت: کھائی مُغَل کی تَہری ،اَب کَہاں جائے گی باہری (مال دار کے نمک کا بڑا لالچ ہوتا ہے یا وہ شخص ایسی چاٹ پر لگا ہوتا ہے)‘‘ اس کہاوت سے لگتا ہے کہ یا تو مُغل سے مراد مغل شہزادگان میں کوئی ہے کہ اُس کے گھر یا محل کی بنی ہوئی تَہری اس قدر لذیذ ہے ۔یا۔کوئی باورچی مغل نامی ایسا لذیذ پکوان بناتا ہو کہ کہیں اور جانے کی صورت میں ویسا نہ ملے۔ ضمناً دُہراتا چلوں کہ ہمارے یہاں جو لوگ اپنے کو مُغل بتاتے ہیں ، وہ درحقیقت راجپوت ہیں۔ میرے عزیز لسانی محقق دوست نویدالظفر سُہرَوَردی نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ دِلّی کے خاص لوگ، زنانہ بولی کے مصداق، اسے تَہری ہی کہتے ہیں، جبکہ شاہجہاں پور (نزد دہلی) کے لوگ، اسے ’’تَہاری‘‘ کہتے ہیں، بروزن نہاری۔ (یہ اور بات کہ نہاری کا بگڑا ہوا تلفظ، زیر سے نِہاری مشہور ہے، حالانکہ یہ نَہار یعنی صبح سے موسوم ہے: س ا ص)۔ ضلع ناندیڑ (ڈویژن اَورنگ آباد، مہاراشٹر، ہندوستان) میں بھی تَہاری کہلاتی ہے اور اِس میں وہ لوگ گوشت اور مَسور کی دال بھی ڈالتے ہیں (یہ انکشاف یوٹیوب پر دستیاب ایک مقامی بچی کی وڈیو سے ہوا)۔ حیدرآباد، دکن (تلنگانہ، ہندوستان) میں بھی تَہاری میں گوشت ڈالاجاتا ہے۔ حیدرآبادی تہاری میں مصالحہ بھوننے کے لیے دہی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے، جبکہ چاول ڈالتے ہوئے لیموں کا رَس بھی شامل کیا جاتا ہے۔ (ضمنی نکتہ: یوٹیوب ہی موجود ایسی وڈیو کلپس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بِہاری کا مخصوص فقرہ ’’اچھّے سے‘‘ اب یو۔پی اور ناندیڑ والے بھی بولنے لگے ہیں، شاید اس کا سبب ہندوستانی ٹی وی ڈراموں کی بول چال ہو)۔ جب ہم دکن یا دکّن (دکھشنڑ/دکھّن) کہتے ہیں تو اِس میں موجودہ ہندوستانی ریاست کرناٹک کے علاقے بھی شامل ہوتے ہیں۔ بِیدر (کرناٹک) میں مقیم ممتاز افسانہ وافسانچہ نگار (سابقہ رُکن بزم زباں فہمی) محترمہ رخسانہ نازنین نے خاکسار کے استفسار پر یہ معلومات فراہم کیں: ’’تہاری یا طہاری: ہم دکنی لوگ تہاری کئی قسم کی بناتے ہیں۔ آلو حسب منشاء ڈالا جاتا ہے۔ ورنہ گوشت، دہی، ٹماٹے (ٹماٹر کا دکنی نام: س ا ص) ہی لازم ہیں۔ نمک، سرخ مرچ، ہلدی، گرم مسالہ، ہرا مسالہ یعنی کوتمیر، پودینہ، سبز مرچ، لیموں کا رس۔ ایک اور قسم کی تہاری موسم سرما کی خاص سبزیاں آنے پر بنائی جاتی ہے۔ جس میں گوشت کے ساتھ کئی ترکاریاں۔ میتھی کی بھاجی، بللر کی پھلی، بٹانا یعنی مٹر، ہری بوٹ یعنی ہرا چنا (بونٹ یا ہولے: س ا ص)، بینز یا سیم کی پھلی، آلو، ٹماٹے ڈالے جاتے ہیں۔ نہایت ہی لذیذ ہوتی ہے۔ یہ صرف ضلع بیدر کی اسپیشل تہاری ہے۔ حیدرآباد (تلنگانہ) میں نہیں بنائی جاتی‘‘۔ (اب یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ تاہری کو بعض لوگ ’ط‘ سے طاہری یا طہاری کیوں لکھتے ہیں؟ قیاس ہے کہ لوگوں نے اپنے طور پر اِسے بھی کسی طاہر سے منسوب وموسوم سمجھ لیا ہوگا)۔ نیپالی زبان میں دِیوالی کے تہوار کو ’’تِہار‘‘ یا ’’تیہار‘‘ (نیز سوانتیSwanti)کہا جاتا ہے، تیوہاری کا نام، ہولی کے تہوار کے لیے (آنلائن معلومات کے مطابق) استعمال ہوا ہے، جبکہ کسی بھی تہوار کے موقع پر پکنے والے کھانوں کو ’تیوہاری‘ یا ’ تاہری‘ کہا جاتا ہے، مگر اس ضمن میں چاول کے پکوان تاہری کا نام نظر نہیں آیا۔ (اس کے علاوہ نہ صرف کسی تہوار کے موقع پر دیا جانے والا انعام اور کھانا بلکہ عیدی اور رشتہ طے ہونے کے بعد دی جانے والی رقم کو بھی تیوہاری اور تہواری کہا جاتا ہے۔ حوالے کے لیے فرہنگ آصفیہ، نوراللغات، علمی اردو لغت اور اُرد و لغت بورڈ کی مختصر اُردو لغت کافی ہیں۔ مؤخر الذکر میں تو تہواری بھی درج ہے)۔ ہرچند کے دیوالی کے کھانوں کی کسی مصدقہ فہرست میں ’تاہری‘ نہیں ملی، مگر ایک پکوان ’’زعفرانی بِریانی‘‘ بالکل وہی ہے۔ ممکن ہے کہ اس کا آغاز ایسے ہی ہوا ہو۔ اس کے اجزائے ترکیبی میں ہلدی کا شامل ہونا بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ تاہری کے پکوان کو تیوہاری کہنے کا رِواج کم کم رہ گیا ہے، مگر دِلّی اور آگرہ سے آنے والے کراچوی آج بھی ’تہری‘ ۔یا۔’تَہَری‘ کہتے ہیں جو بظاہر تیوہاری سے تاہری اور پھر تہری بننے کا نتیجہ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگریہ نام تیوہاری کسی ایک علاقے سے مخصوص ہو اور دیگر مقامات پر اِسے تہری کہتے ہوں، تو اِس پکوان میں تین چیزوں (یعنی چاول، بڑیوں اور ہلدی) کی شمولیت کی وجہ سے اسے تین سے تہری (لفظ تہرا کی مؤنث) کردیا گیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا تاہری کا کوئی تعلق کسی تہوار (تیوہار) سے بھی ہے؟ اس کے جواب میں تحقیق ابھی تک خام ہے۔ لسانی قیاس سے کام لیا جاسکتا ہے، البتہ آزاد دائرۃ المعارف (عُرف اُردو وِکی پیڈیا) نے ہماری معلومات میں یہ اضافہ کیا ہے: اقتباس از آزاد دائرۃ المعارف تہری (پکوان): تہری (تہاری یاتیاری) اَوَدھی پکوان میں ایک پیلے چاول کی ڈش ہے۔ ذائقے اور رنگ کے لیے سادہ پکے ہوئے چاول میں مصالحے ڈالے جاتے ہیں۔ تہری کی ایک ورائٹی میں چاول میں آلو بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ یہ پکوان گلبرگا، حیدرآباد اور نندیڈ (نانڈیر: س ا ص) میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔ تہری اور تہاری سبزی کی بریانی کی ایک قسم کا دیا گیا نام ہے۔ اس پکوان کو مختلف قسم کے گوشت اور ہرے مٹر کے ساتھ بھی تیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ پکوان مچھلی کے گوشت سے بھی تیار کیا جاتا ہے۔ یہ پکوان جنوبی ایشیاء میں مسلم نواب حکمرانوں کے ہندو منشیوں کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران میں تہری پکوان بہت زیادہ مشہور ہوا کیونکہ گوشت کی قیمتوں میں خاطرخواہ اضافہ ہوگیا تھا اور آلو بریانی کا مقبول متبادل بن گیا تھا۔ (یعنی بریانی مہنگی پڑ رہی تھی، اس کے متبادل کے طور پر تاہری/ تہاری/ تہری ایجاد کی گئی: س ا ص)۔ مقبول ثقافت میں: ٹی وی ایف کی ویب سیریز گلک میں، شانتی مشرا، چاول اور آلو سے ایک سادہ سی تہری بناتی ہیں، جس پر ان کا بیٹا 'مایوسی' کا اظہار کرتا ہے اور کھانے سے لطف اندوز نہیں ہو پاتا۔ ہندو ثقافت اور تہری: شمالی ہندوستان میں، ہر ہندو گھر میں مکر سنکرانتی اور وسنت / بسنت پنچھمی کے دن تہری بنائی جاتی ہے۔ (اس انکشاف سے معلوم ہوا کہ ممکن ہے یہ مذہبی چھاپ خطہ ہند کے شِمال تک محدود ہو اور بعداَزآں اسے ضرورت پڑنے پر عام کیا گیا ہو: س ا ص) اقتباس ختم شُد اس سارے معاملے میں سب سے دل چسپ اور حیران کُن انکشاف یہ ہے کہ بقول ہمارے دفتری ساتھی سائیں علی محمد، سندھی میں تاہری سے مراد، گُڑوالے چاول یا میٹھے چاول ہیں اور اُن کے یہاں یہ ہلدی والی تاہری کا تصور (غالباً) موجود نہیں! بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ ڈھاٹکی بولی (سندھی کا لہجہ) بولنے والے ایک صاحب نے بھی اِسی تاہری کا ذکر کرتے ہوئے اِس کا نام تَہَری بتایا اور یہ اضافہ کیا کہ یہ راجستھان میں خوشی کے مواقع پر پکائی جاتی ہے۔ اُن کا صوتی پیغام ڈاکٹر ساجدہ پروین قائم خانی صاحبہ نے ارسال کیا۔ گزشتہ کچھ دنوں سے خاکسار کے واٹس ایپ حلقے ’’بزم ِ زباں فہمی‘‘ میں کھانے کے مختلف موضوعات گفتگو کا حصہ بنتے رہے ہیں ، ماضی میں بھی ایسا ہوتا تھا کیونکہ بزم کے بانی یعنی راقم کا خیال ہے کہ یہ بھی زبان وتہذیب کا حصہ ہے اور اِس باب میں ہمارے اراکین ہی نہیں، بلکہ عوام وخواص کی تمیز سے قطع نظر، بہت سے لوگ بہت کچھ نہیں جانتے۔ کسی پکوان کے متعلق کوئی معلومات فراہم کی جائیں تو اِس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ زبان ثقافت کا وہ حصہ ہے جس میں کسی بھی قوم کے ادب سے لے کر رسم ورِواج، مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اُمور اور عوامی ونجی زندگی کے تمام پہلو، حتیٰ کہ دین مذہب تک، سبھی کچھ شامل ہے۔ اگر ہم زبان دانی کا سوالاً جواباً سلسلہ یعنی Quizکسی بھی طبقے میں شروع کریں اور مثال کے طور پر پوچھیں کہ بتائیے یہ ’’نان خطائی ‘‘ کیا ہے اور اِس کی وجہ تسمیہ کیا ہے، تو یقین کیجئے 95 فیصد سے زائد لوگ (بشمول اہل قلم) اس کا صحیح جواب نہیں دے سکیں گے۔ اسی طرح باقر خانی، کُلچے، مختلف قسم کے پکوان بشمول چاول کے پکوان اور دیگر متعلقات پر ہرکس وناکس کی معلومات یکساں نہیں ہوتیں، بلکہ اہلِ زبان کی ایک بڑی تعداد یہ نہیں جانتی کہ وہ کچھ کھارہی ہے، اس کی بھی کوئی تاریخ ہے اور کیا ہمیں فقط کھانے سے مطلب ہونا چاہیے یا ایسے کسی موضوع پر تحقیق بھی کرنی چاہیے۔ یہ موضوع یقیناً بہت سے قارئین بشمول اہل قلم کے لیے انوکھا ہوگا اور میرے چاہنے والے تو خیر جو کہیں گے سو کہیں گے، ایک صدا کہیں سے ضرور آئے گی: ’’بڑا فالتو وقت ہے بھئی....بتاؤ ایسے موضوع پر لکھ دیا جس پر کسی کی نظر ہی نہیں!‘‘۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل