Monday, July 14, 2025
 

غزہ، عالمی ضمیر کا پیمانہ

 



اسرائیل کی جانب سے فلسطینی سرزمین میں فوج رکھنے کی تجویز کی وجہ سے بات چیت میں تعطل آیا ہے، اسرائیل کے پیش کردہ انخلا کے نقشے کے مطابق اسرائیل 40 فی صد پٹی پر موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ الجزیرہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں فلسطینیوں کو ایک وسیع کیمپ میں منتقل کرنے کے منصوبے کو فلسطینی عوام نے مسترد کردیا ہے۔ ادھر غزہ پر تباہی کی جنگ کے 645 ویں دن ہفتے کے دن صیہونی فورسز نے مزید 82 فلسطینیوں کو شہید کردیا، ان میں سے 27 افراد کو امداد وصول کرنے کے دوران مارا گیا۔ فلسطین کی موجودہ صورتحال انسانی المیے، عالمی سیاسی مفادات اور طاقت کے اندھے استعمال کا ایک زندہ ثبوت بن چکی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ برس سے اسرائیلی مظالم کا جو سلسلہ جاری ہے، اس نے نہ صرف فلسطینی عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے بلکہ عالمی ضمیر کو بھی کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے چالیس فی صد علاقے پر فوجی موجودگی برقرار رکھنے کی تجویز اور رفح میں فلسطینیوں کو ایک وسیع کیمپ میں منتقل کرنے کا منصوبہ، دراصل نہ صرف فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، بلکہ یہ پوری دنیا کے امن کے لیے ایک سنگین خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔ ایسے میں یہ سوال شدت سے اٹھتا ہے کہ آخر دنیا اس ظلم کو بند کروانے میں ناکام کیوں ہے؟ اسرائیلی حکمت عملی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آگے بڑھ رہی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف فلسطینی سرزمین پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا اور وہاں کے عوام کو بے گھر کرنا ہے۔ رفح میں قائم کیے جانے والے مجوزہ کیمپ کو اگرچہ ایک وقتی حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن فلسطینی عوام نے بجا طور پر اسے ایک دائمی جلاوطنی کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔ یہ تجویز نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اس کا مقصد فلسطینیوں کو ان کی اپنی زمین سے کاٹ دینا اور ان کو ایک بڑے کیمپ میں قید کردینا ہے جہاں ان کے پاس نہ وسائل ہوں گے، نہ سلامتی اور نہ ہی وقار۔ فلسطینی عوام کی طرف سے اس منصوبے کی سخت مخالفت یہ واضح کرتی ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنی شناخت، اپنی زمین اور اپنی آزادی کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ان کا یہ موقف نہ صرف قابل تحسین ہے بلکہ ایک ایسی قوم کی مزاحمت کی مثال ہے جو عالمی طاقتوں کے دوغلے رویے اور طاقتور کے ظلم کے باوجود اپنے حق پر ڈٹی ہوئی ہے۔  اقوام متحدہ ہو یا انسانی حقوق کی تنظیمیں، ان سب کی جانب سے وقتاً فوقتاً مذمتی بیانات تو آتے ہیں، لیکن عملی اقدامات کا فقدان اس بات کا غماز ہے کہ دنیا کا نظام صرف طاقتورکے مفاد کا محافظ بن چکا ہے۔ اسرائیل کو جب بھی کسی بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہوا ہے، امریکا کی فوری سفارتی حمایت اسے ہر مشکل سے نکال لیتی ہے۔ امریکا نہ صرف اسرائیل کو اربوں ڈالر کی عسکری امداد فراہم کرتا ہے بلکہ ہر بین الاقوامی فورم پر اس کے مظالم کو قانونی جواز بھی فراہم کرتا ہے۔ اس رویے نے نہ صرف فلسطینی عوام کو مایوس کیا ہے بلکہ پوری مسلم دنیا میں امریکا کے بارے میں شدید بدگمانی کو جنم دیا ہے۔ امریکا کے اس جانبدارانہ کردار نے دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ طاقت کا توازن انسانی حقوق پر بھاری ہے اور انصاف کے تقاضے صرف کمزوروں پر لاگو ہوتے ہیں۔ فلسطینیوں کی جدوجہد کسی سرحدی تنازعے کی نہیں بلکہ وجود، بقا، شناخت اور انصاف کی جنگ ہے۔ ان پر ڈھائے جانے والے مظالم صرف فوجی کارروائیوں تک محدود نہیں بلکہ ان کے گھروں کی تباہی، اسپتالوں، اسکولوں، عبادت گاہوں پر حملے، غذائی قلت، پانی کی عدم دستیابی اور ایک منظم طریقے سے معیشت کی تباہی نے ان کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ رفح کی تباہی، خان یونس کی بربادی، غزہ کی تباہ حال عمارتیں اور ملبے تلے دبی انسانی لاشیں اس بات کا اعلان ہیں کہ اسرائیلی جارحیت ایک نسل کشی کی شکل اختیارکرچکی ہے۔ ایسے میں فلسطینی قیادت، جو پہلے ہی سیاسی انتشار اور بین الاقوامی حمایت کے فقدان کا شکار ہے، مزید دباؤ میں ہے۔ حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان اختلافات، فلسطینی عوام کی صفوں میں بد اعتمادی کو جنم دے رہے ہیں، جس کا فائدہ اسرائیل خوب اٹھا رہا ہے۔ سلامتی کونسل میں جب بھی اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد پیش کی جاتی ہے، تو امریکا اسے ویٹو کر دیتا ہے۔ اس نے اسرائیلی مظالم کو نہ صرف سیاسی بلکہ اخلاقی جواز بھی فراہم کیا ہے۔ امریکا کے اس دوغلے رویے نے دنیا میں انصاف، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے برعکس، جب کسی اور ملک میں انسانی حقوق کی معمولی خلاف ورزی ہوتی ہے تو امریکا فوری طور پر اقتصادی پابندیاں لگا دیتا ہے، سفارتی تعلقات منقطع کر لیتا ہے اور فوجی کارروائی کی دھمکیاں دینے لگتا ہے۔ یہی وہ دہرے معیار ہیں جنھوں نے دنیا کو ایک غیر منصفانہ اور غیر مستحکم نظام میں دھکیل دیا ہے۔ فلسطینیوں کے لیے نہ کوئی عالمی عدالت انصاف ہے، نہ کوئی اقوام متحدہ کی امن فوج، نہ کوئی انسانی حقوق کا ادارہ جو ان کے لیے آواز بلند کرے۔  فلسطینی عوام کی قربانیاں، ان کی استقامت اور ان کی جدوجہد تاریخ میں ایک روشن باب کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ ان کے بچوں کی لاشیں، ان کی ماؤں کی سسکیاں، ان کے گھروں کا ملبہ، سب ایک دن دنیا کے ضمیر پر دستک دیں گے۔اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کی باشعور اقوام، صحافی، انسانی حقوق کے علمبردار اور عالمی ضمیر بیدار ہو۔ اسرائیل کے خلاف صرف مذمتی بیانات نہیں بلکہ عملی اقدامات کیے جائیں۔ اقتصادی پابندیاں، سفارتی دباؤ، بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات اور اقوام متحدہ کی امن فوج جیسے اقدامات اس وقت ناگزیر ہو چکے ہیں، اگر آج فلسطین کے لیے آواز نہ اٹھائی گئی توکل دنیا کے کسی بھی کونے میں یہی ظلم کسی اور کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ امریکا کے لیے یہ ایک نازک موقع ہے، اگر وہ واقعی ایک دیانت دار ثالث کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے صرف اسرائیل کے مفادات کا تحفظ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی بقا کو بھی مساوی اہمیت دینا ہوگی۔ جب تک جنگ بندی کے منصوبے میں فلسطینی عوام کی مکمل سیکیورٹی، بنیادی سہولیات کی بحالی اور اسرائیلی فوج کا غزہ سے مکمل انخلاء شامل نہیں ہوگا، تب تک کوئی بھی معاہدہ دیرپا ثابت نہیں ہو سکے گا۔دوسری جانب اسرائیل میں بھی سیاسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔یہ ایک قوم کا مسئلہ نہیں، یہ پوری انسانیت کا امتحان ہے۔ امن کی بات تب ہی کی جا سکتی ہے جب فریقین برابری کی سطح پر ہوں۔ جب ایک طرف دنیا کی سب سے طاقتور فوج ہو اور دوسری طرف نہتے عوام، تو امن کی بات کرنا ایک مذاق بن جاتا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا بنیادی حق، یعنی ایک آزاد، خود مختار ریاست دی جائے۔ جس کی سرحدیں 1967 کے معاہدے کے مطابق ہوں، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو اور جس میں فلسطینی عوام کو اپنی شناخت، اپنی زمین، اور اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ جب تک یہ حق نہیں دیا جاتا، رفح جیسے کیمپ مزید جنم لیتے رہیں گے اور ہر روز کوئی نہ کوئی بچہ، ماں، یا بزرگ اس نام نہاد امن کی بھینٹ چڑھتا رہے گا۔ دنیا کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ طاقت کے بل پر امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ امن صرف انصاف سے آتا ہے اور انصاف تب ہی ممکن ہے جب مظلوم کی آواز سنی جائے، جب ظالم کا ہاتھ روکا جائے، اور جب انسانیت کو سیاست پر فوقیت دی جائے، اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ فلسطین صرف ایک سرزمین نہیں، یہ انسانیت کے وقار، انصاف کے نظریے اور عالمی ضمیر کا پیمانہ ہے اور جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں ملتا، تب تک دنیا میں کوئی حقیقی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کسی بھی قوم کو اپنی زمین پر آزادانہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، لیکن فلسطین میں یہ حق مسلسل پامال ہو رہا ہے۔ عالمی برادری اگر واقعی فلسطین میں امن چاہتی ہے تو اسے اسرائیل پر عملی دباؤ ڈالنا ہوگا۔ صرف مذمتی بیانات، غیر مؤثر قراردادیں یا عارضی امداد کافی نہیں۔ جب تک اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے، جیسے کہ اقتصادی پابندیاں، سفارتی بائیکاٹ اور جنگی جرائم کی عالمی سطح پر تحقیقات، تب تک کوئی بھی امن کا منصوبہ دیرپا نہیں ہو سکتا۔ صرف ایک آزاد فلسطینی ریاست ہی مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی ضمانت بن سکتی ہے اور اس ریاست کا قیام صرف بات چیت، مزاحمت اور عالمی دباؤ کے ذریعے ممکن ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل