Loading
ممتاز بھارتی دانشور، کالم نویس ، عالمی شہرت یافتہ سیاسی تجزیہ نگار اور سویڈن یونیورسٹی کے ایک شعبے کے سربراہ اشوک سوین( Ashok Swain)نے 12جون 2025کو شایع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں ایک انکشاف یوں کیا ہے :’’ مشہور ترین بھارتی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اُجیت ڈوول( جس کی پاکستان دشمنی بھی اظہر من الشمس ہے)کے دو بیٹے ہیں۔ ایک نے بھارتی شہریت چھوڑ کر امریکی شہریت اختیار کررکھی ہے ، اور دوسرا بیٹا بھی بھارتی شہری ہونے کے بجائے اب برطانوی شہری بن چکا ہے ۔‘‘ اِس کے بعد اشوک سوین لکھتے ہیں:’’ یہ ہے بھارتی حکمران طبقے کی بھارت سے محبت کی ایک مثال۔ یہ اعلیٰ مراعات یافتہ بھارتی طبقات دوسروں کے بیٹوں کو بھارت سے محبت کے سبق دیتے نہیں تھکتے ، مگر بباطن بھارت سے اِن کی اپنی محبت کا یہ عالم ہے ۔ ان طبقات نے بھارتی غریبوں کو ہندوتوا کی بھڑکتی آگ میں جھونک رکھا ہے جب کہ اپنی اولادوں کو اِس آگ سے بچا کر امریکا اور برطانیہ کی محفوظ ترین سوسائٹیوں کا حصہ بنا رکھا ہے ۔‘‘ ایک ایسا ہی انکشاف بھارت ہی کے ایک مشہور ترین ہندو سیاستدان اور سابق مرکزی وزیر ،سبرامینین، نے کیا ہے ۔ سبرامینین سوامی جی نے بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہُوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ بھارتی اپوزیشن پارٹی کے سرخیل ، راہل گاندھی، دراصل برطانوی شہری ہیں ۔ سبرامینین نے ثبوت فراہم کرتے ہُوئے راہل گاندھی کی وہ ٹیکس دستاویزات بھی میڈیا کو پیش کر دیں جو زبانِ حال سے بتا رہی ہیں کہ راہل گاندھی نے بطورِ برطانوی شہری برطانوی حکومت کو ٹیکس ادا کیا ہے ۔ سبرامینین سوامی کہتے ہیں:’’ راہل گاندھی کی والدہ ، سونیا گاندھی ، اِسی لیے وزیر اعظم نریندر مودی پر دباؤ ڈال کر انھیں بلیک میل کررہی ہیں کہ کہیں وہ راہل گاندھی پر برطانوی شہری ہونے کا مقدمہ دائر نہ کر دیں ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو راہل گاندھی بھارتی لوک سبھا(قومی اسمبلی) کی رکنیت سے محروم ہو جائیں گے ۔‘‘ ہم تو خیال کیے بیٹھے تھے کہ صرف کئی پاکستانی سیاستدان ، کئی سینئر جونیئر بیوروکریٹ، متنوع سرکاری اشرافیہ ہی پاکستان کے علاوہ امریکا، برطانیہ ، کینیڈا ، اور کئی مغربی ممالک کی شہریتیں رکھتے ہیں ۔ اُن کی آل اولادیں بھی غیر ملکی سٹیزن شپ حاصل کیے ہُوئے ہیں۔ کئی بار پاکستان کی کئی حکومتیں اعلان کر چکی ہیں کہ ہر قسم کے وہ اعلیٰ ترین سرکاری افسر جنھوں نے خفیہ طور پر غیر ملکی شہریتیں حاصل کررکھی ہیں،سامنے آئیں۔ لیکن ہر بار یہ طاقتور لوگ طرح دے جاتے ہیں کہ یہی لوگ تو اصل میں خود حکومت ہیں ۔ اب مگر سبرامینین سوامی کی زبانی انکشاف ہُوا ہے کہ بھارتی مقتدر سیاستدانوں کو بھی غیر ملکی شہریتیں لینے کا چسکا پڑ چکا ہے ۔ پاکستانی سیاستدانوں کی مانند بھارتی سیاستدان اور اُن کی اولادیں بھی جب غیر ملکی شہریت لیتے ہیں تو اِس کا صاف مطلب و معنی یہ ہے کہ انھیں اپنے اپنے ملک کے مستقبل پر یقین اور اعتماد نہیں ہے ۔ یہی دراصل اِن لوگوں کے اصل چہرے ہیں جو اپنے عوام کو تو اپنے ملک سے محبت کرنے کا درس دیتے ہیں لیکن خود اور اُن کی اولادیںاپنے ملک ہی میں نہیں رہنا چاہتیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے حکمران و طاقتور طبقات کے دانت عوام کو دکھانے کے لیے اور ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے اور ۔ پاکستان کی کئی مقتدر، سیاسی اور سرمایہ دار شخصیات پر الزام لگتے رہے ہیں کہ وہ جائز و ناجائز ذرایع سے پاکستان کی دولت غیر ممالک میں چھپا رہے ہیں اور ناجائز ذرایع سے بنائی گئی کالی دولت سے مغربی ممالک میں جائیدادیں بنا رہے ہیں ۔اِسی طرح کے الزامات ، شواہد کے ساتھ ، اب بھارتی سرمایہ داروں پر بھی عائد ہو رہے ہیں ۔ یہ بھارتی سرمایہ دار بھارتی حکومت سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں اور بھارتی حکمرانوں کی مالی امداد بھی کرتے ہیں۔جوابی طور پر طاقتور بھارتی حکمرانوں سے بھاری مراعات اور سہولیات بھی پاتے ہیں اور یوں مزید دولت کماتے ہیں ۔ پاکستان اور بھارت میں تو یہ اپنی دولت، اثر ورسوخ اور رشوت ستانی سے قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں مگر مغربی ممالک میں رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں ۔ اِس کی تازہ ترین مثال گوتم اڈانی کی شکل میں سامنے آئی ہے ۔ گوتم اڈانی بھارت کے ممتاز ترین سرمایہ دار ، صنعت کار اور سرمایہ کار ہیں ۔ اربوں ڈالر کے مالک! گوتم اڈانی کے پاس دُنیا کا دوسرا بڑا دولتمند شخص ہونے کا اعزاز بھی رہا ہے۔ اپنی دولت کے بَل پر انھوں نے بھارتی وزیر اعظم اور مقتدر بی جے پی کے کئی طاقتور مقتدرین کو بھی اپنی مٹھی میں لے رکھاہے ۔ پہلے انھوں نے نریندر مودی اور اُن کی متعصب ہندوتوا پارٹی ، بی جے پی، کو اربوں روپوں میں سیاسی و انتخابی چندے دیے اور پھر اِس کے صلے میں مودی حکومت سے کئی سرکاری سہولیات حاصل کرکے بھاری وصولیاں کی جا رہی ہیں۔اِنہی گوتم اڈانی پر الزام لگا ہے کہ انھوں نے نیویارک میں سولر انرجی سپلائی کا کنٹریکٹ حاصل کرنے کے لیے مقامی سطح پر متعلقہ افراد کو250ملین ڈالر کی رشوت دی ہے ۔ گوتم اڈانی پر یہ الزام ، مبینہ طور پر، امریکا کے ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس اینڈ سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن نے عائد کیا ہے۔ بھارت اور امریکا میں یکساں طور پر اِس الزام کی بڑی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ انڈین اپوزیشن لیڈر ، راہل گاندھی، نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گوتم اڈانی کو فوری طور پر گرفتار کرکے سرکاری تحویل میں لیا جائے ۔ساتھ ہی راہل گاندھی کہتے ہیں:’’ مگر ہم جانتے ہیں کہ گوتم اڈانی گرفتار نہیں ہوں گے کیونکہ اڈانی کے محافظ و محسن خود وزیر اعظم نریندر مودی ہیں ۔اور اگر مودی جی آگے بڑھ کر گوتم اڈانی کو گرفتار کرنا بھی چاہیں تو وہ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ مودی جی کو اڈانی اپنی بے پناہ دولت اور متنوع احسانات سے کنٹرول کرتے ہیں ۔‘‘ بھارتی دولتمند ، گوتم اڈانی، کا اصل چہرہ برہنہ ہُوا ہے تو ہر طرف ہاہاکار مچی ہُوئی ہے۔بھارتی اخبار ’’اکنامک ٹائمز‘‘ کا دعویٰ ہے کہ اڈانی کا کرپٹ چہرہ ننگا ہوتے ہی کینیا نے گوتم اڈانی گروپ سے کی گئی پاور ٹرانسمیشن ڈِیل منسوخ کر دی ہے ۔ سابق بھارتی وفاقی وزیر، سبرامینین سوامی، نے بھی کہا ہے کہ گوتم اڈانی چونکہ سوئزر لینڈ میں کئی گھر بنا رہا ہے، اس لیے بھی اُسے نیویارک میں کرپشن کی ہیرا پھیری کرنا پڑی ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ بھارتی سرمایہ دار گوتم اڈانی کی مبینہ کرپشن کی داستان عین ایسے ایام میں سامنے آئی ہے جب ہمارے ایک سابق وزیر اعظم کے لندن میں مقیم صاحبزادے کے بارے میں پچھلے دنوں یہ حیران کن خبر آئی کہ لندن میں ٹیکس کے معاملات میں انھیں 52لاکھ پونڈز کا جرمانہ کیا ہے ۔ بی بی سی نے بھی یہ خبر شایع کی ہے ۔ نون لیگ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اگر موصوف صاحبزادے پاکستان میں ہوتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ انھیں یا اُن کی کسی کمپنی کو اتنا بڑا جرمانہ کیا جا سکتا تھا؟؟ مشہور بھارتی اخبار(ٹائمز آف انڈیا) نے اپنے فرنٹ پیج پر نمایاں طور پر یہ خبر شایع کی ہے: ’’دہلی ہائیکورٹ کے جج ، جسٹس یشونت ورما، کے سرکاری رہائشی بنگلے میں آگ لگ گئی ۔ اُس وقت جج موصوف اپنے بنگلے میں نہیں تھے ۔ آگ بجھانے والے جب بنگلے پر پہنچے تو انھوں نے یہ حیران کن منظر دیکھا کہ جج یشونت ورما کے ایک اندرونی رہائشی کمرے میں ڈھیروں ڈھیر بھارتی کرنسی پڑی ہے۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر سُو پھیل گئی ؛ چنانچہ بھارتی سپریم کورٹ کے سربراہ نے جج موصوف کو مزید بے عزتی سے بچانے کے لیے فوری طور پر اُن کا تبادلہ الٰہ آباد ہائیکورٹ میں کر دیا۔‘‘بھارت کے ایک مشہور اینکر پرسن نے اپنے ٹاک شو میں انکشاف کیا ہے کہ جسٹس یشونت ورما کے گھر میں ’’ڈھیروں ڈھیر ملنے والی یہ رقوم دس کروڑ روپے‘‘ تھیں جو بالکل حرام تھیں ۔ حیران کن بات ہے کہ پاکستان اور بھارت میں دہری شہریتیں اور دہرے چہرے رکھنے والے ہی طاقت و دولت کے مالک ہیں۔ نہ پاکستان میں منی لانڈرنگ کرنے والوں اور رشوت خوروں پر آج تک آہنی ہاتھ ڈالا جا سکا ہے اور نہ ہی بھارت میں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل