Monday, July 14, 2025
 

کیا سیاسی قیادتیں کچھ سیکھ سکیں گی؟

 



جمہوری سیاست کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ یہ کام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت سے جڑا ہوتا ہے۔ آج پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کمزور حیثیت کے ساتھ موجود ہے اور حقیقی معنوں میں ہم جمہوریت سے دور کھڑے ہیں۔ایک بڑی وجہ غیر سیاسی قوتوں کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ ہے ۔ بہت سے اہل دانش اسی عنصر کو جمہوریت کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔یہ تجزیہ یقینی طور پر درست ہی سمجھا جاتا ہے اور سچ بھی ہے ۔مگر یہ جمہوری ناکامی کا آدھا سچ ہے اور پورے سچ میں ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی سیاسی قیادت بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔کیونکہ جب بھی جمہوری عمل میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی یا جمہوری بساط لپیٹی گئی یا آئین اور قانون سے ہٹ کر ہم نے سیاسی نظام کو چلانے کی کوشش کی یا غیر سیاسی قوتوں کے غیر سیاسی ایجنڈے کی حمایت درکار ہو تو اس میں بہت سی بڑی اور چھوٹی جماعتیں بڑی طاقتوں کی سہولت کاری میں پیش پیش ہوتی ہیں ۔ سیاسی اور جمہوری عمل میں منطق یہ ہوتی ہے کہ سیاسی قوتیں ،جماعتیں ،قیادت اور سیاسی کارکن سمیت سول سوسائٹی اور اہل دانش مل کر یا خود کو منظم کرکے جمہوری عمل میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے میں اپنا دباو بڑھاتے ہیں،مزاحمت کرتے ہوئے سیاسی اور قانونی جنگ کرتے ہیںتاکہ معاشرے کو جمہوری ریاست میں تبدیل کرسکیں۔لوگوں کی جمہوری ریاست کی تشکیل میں سب سے زیادہ توقعات بھی سیاسی نظام یا سیاسی جماعتوں سمیت ان کی قیادت سے ہوتی ہے ۔ کیونکہ یہ ہی قوتیں تبدیلی کی حقیقی ایجنٹ بھی ہوتی ہیںاور شہری آزادی اور ان کے حقوق کی ضامن بن کر عام آدمی کا مقدمہ بھی لڑتی ہیں۔لیکن ہماری سیاسی جماعتوں نے عملی طور پر سیاست،جمہوریت اور حقوق کی جدوجہد کو ایک بڑے سیاسی نعرے یا ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے اپنی ذاتی سیاست اور مفادات کو تقویت دی ہے۔ اصل گلہ چھوٹی جماعتوں کے مقابلے میں بڑی قومی سیاسی جماعتوں سے ہے جو ایک طرف سیاسی جدوجہد اور جمہوریت کی یا پارلیمان کی بالادستی کی جنگ کی باتیں کرتی ہیں مگریہ ہی جماعتیں اقتدار ے حصول کے لیے بڑی طاقتوں کے سیاسی ایجنڈے میں سہولت کاری کا کردار بھی ادا کرتی ہیں۔جب یہ بڑی جماعتیں اقتدار میں ہوتی ہیں تو ان کا اسٹیبلیشمنٹ کا صفحہ اور تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور جب یہ اقتدار سے باہر ہوتی ہیں تو صفحہ بھی ایک نہیں رہتا یا تعلقات کی اچھی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔ جب میثاق جمہوریت ہوا تھا دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرکے جمہوریت کی بنیاد پر ہی آگے بڑھنے کا وعدہ کیا تھا ۔مگر ان دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت کے بعد کی سیاست میں خود ہی کئی غیر جمہوری فیصلے کیے،اقدامات کیے اور ہر اس فیصلے کی حمایت کی جو آمریت کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوئی۔ اس کھیل میں تحریک انصاف کا بھی کردار ہے جس نے اپنی سیاست کو اسٹیبلیشمنٹ کی سیاست تک محدود کیااور جمہوری سیاست سے زیادہ توقعات اسٹیبلیشمنٹ سے جوڑی۔ان تینوں جماعتوں نے ماضی کے کھیل میں اپنے ہی سیاسی فیصلوںکی بھاری قیمت بھی ادا کی ہے۔ اس وقت بھی جو دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن پر مشتمل اتحادی حکومت کا جو عملی کردار ہے اس میں جمہوریت،آئین اور قانون کی حکمرانی سمیت عدلیہ کی خود مختاری ،اداروں کی بالادستی ، قومی سطح پر مضبوط ، سول سوسائٹی،بنیادی انسانی حقوق جیسے مسائل پیچھے رہ گئے ہیں اور اقتدار کی سیاست غالب ہوچکی ہے۔ جو غلطیاں پی ٹی آئی نے کی اب ان ہی غلطیوں کو اور زیادہ شدت کے ساتھ موجودہ حکومت کررہی ہے۔یہ جو کچھ آج پی ٹی آئی کے ساتھ ہورہا ہے اور یہ ہی کچھ مستقبل میں آج کی حکومت کے ساتھ ہونا ہے اور یہ ہی سیاسی مکافات کا عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں تواتر کے ساتھ میثاق جمہوریت ،میثاق معیشت پر زور دیتی ہیں یا پارلیمان اور پارلیمان کی سطح پرمکالمہ،بات چیت اور مفاہمت سمیت قومی ایجنڈے کی تشکیل پر زور دیتی ہیںلیکن عملی سیاست میں سیاسی جماعتوں کا مجموعی سطح پر کردار بہت کمزور اور تضادات پر مبنی ہے۔ پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین سمیت کئی سیاسی پنڈت یہ دہائی بھی دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی عملی سطح پر مزاحمت خود کو اسٹیبلیشمنٹ کے سامنے قابل قبول بنانا ہے اور اس کا جمہوری سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔پی ٹی آئی کے مقابلے میں ملک کی دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن وسیع تجربہ رکھتی ہیں مگر ان کی آج کی موجودہ سیاست جمہوری عمل کو اور زیادہ کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہے مگر ان جماعتوں کی قیادت جمہوریت سے زیادہ کسی اور قوتوں کی خوشنودی کو حاصل کرکے اپنے اقتدار کی سیاست کو اور بھی زیادہ مضبوط کرنا چاہتی ہے ۔ جمہوریت کی مضبوطی سے جڑے تمام فریق اپنے اپنے گریبانوں میں بھی دیکھیں اور اپنا اپنا داخلی احتساب بھی کریںکہ جمہوریت کی کمزوری میں ان کا اپنا کردار کیا رہا ہے۔ اس وقت اگر پاکستان نے جمہوریت ،آئین اور قانون کی حکمرانی کے درست سمت میں جانا ہے تو سیاسی جماعتوں کو اپنے موجودہ حکمت عملی اور سیاسی پالیسیوںمیں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانی ہوگی ۔ جب تک اہل سیاست ایک دوسرے کو قبول نہیں کریں گے بات آگے نہیںبڑھ سکے گی۔اس وقت بڑی سیاسی جماعتیں چاہے وہ اقتدار میں ہیں یا اس وقت وہ اقتدار سے باہر ہیں دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایک بڑے سیاسی ،قانونی اور آئینی فریم ورک پر متفق نہیں ہونگی اور اس پر سب مل کر مشترکہ نکات پر جدوجہد نہیں کریں گی کوئی بنیادی تبدیلی قومی سیاست میں ممکن نہیں۔اس وقت سیاسی قوتوں کا سہولت کاری کے کھیل سے خودکو علیحدہ نہ کرنا خود ان کی اپنی ناکامی کے زمرے میں آئے گا۔ اگر تینوں بڑی سیاسی جماعت جن میں پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی نمایاں ہیںماضی کی سیاست سے باہر نہیں نکلیں گی اور ایک دوسرے کی دشمنی میں عملاکسی تیسرے فریق کا کھیل کھیلیں گی تو اس سے جمہوری منزل قریب آنے کے اور دور ہوتی چلی جائے گی۔ سیاست میں ایک دوسرے کے لیے سیاسی دروازے بند کرنا سیاسی حکمت عملی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی سیاست کو اس نہج پر لے جائیں جہاں سیاسی تعلقات کی نوعیت سیاسی دشمنی میں تبدیل ہوجائے۔اس لیے جمہوری قوتوں کا مقدمہ جمہوری قوتوں ہی کی کورٹ میں ہے ۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل