Monday, July 14, 2025
 

 اپنے عہد کی گواہی

 



            سودا کی جو بالیں پہ گیا شور قیامت             خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے             صبح کے ابھی آٹھ یا سوا آٹھ ہی بجے ہوں گے کہ دروازے پر شائستہ سی دستک ہوئی۔ میری مصروفیت دن کے کوئی دو بجے شروع ہونی تھی، یوں میں مطمئن تھا اور خیال تھا کہ مجھے آج صبح صبح بیٹی کو دفتر پہنچانے نہیں جانا، اس لیے لمبی تان کر سونے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ مزے سے کمبل میں سر دیے پڑا رہا اور سوچتا رہا کہ آج کا دن اپنا ہے، مزے سے اٹھیں گے۔ ہاتھ منھ دھوئیں یا نہ دھوئیں، بستر سے نکلیں یا نہ نکلیں کوئی پوچھنے والا نہیں لیکن اس دستک نے یہ خواب پریشاں کر دیا۔ اسی پریشانی میں خلد آشیانی محمد رفیع سودا کا یہ شعر یاد آیا اور بر محل یاد آیا ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ میں اس شاعر  اور ان کے اس شعر کو بورژوائی قرار دے کے دہائیوں پہلے مسترد کر چکا تھا۔              انٹرمیڈیٹ کے پہلے سال میں پروفیسر سید شبیر حسین صاحب مرحوم  اردو کے میرے استاد تھے۔ پڑھاتے ہوئے جب وہ سودا پر آئے تو انھوں نے میر تقی میر اور سودا کے مزاجوں کے فرق کو بھی اجاگر کیا اور بتایا کہ سودا کے مزاج میں نزاکت اور طنطنہ ہے، اس لیے کہ اس لیے کہ ان کا شمار طبقہ امرا میں ہوتا تھا۔ اس کے مقابلے میں میر میں درویشی اور سادگی ہے کیوں کہ ایسی کیفیت میں ان کا ردعمل بالکل جدا ہے۔ میر کہتے ہیں  سرہانے میر کے کوئی نہ بولو ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے             یوں نوجوانی کے انقلابی ذہن نے میر کو قبول کر لیا اور سودا کو اپنی پسند کے دائرے سے نکال باہر کیا لیکن بے فکری کی صبح میں کھنڈت نے سودا کی یاد دلائی اور پہلی بار وہ اچھے بھی لگے۔ بس، اسی ہلے میں سودا کے مزاج کا ناشتہ بھی کر لیا۔ آملیٹ، پراٹھا اور میٹھی چائے۔ عام حالات میں بھلا کون ان نعمتوں کو ہاتھ بھی لگانے دیتا۔ ناشتے کے بعد سرشاری کے عالم میں؛ میں نے گزری ہوئی رات کے واقعات کو یاد کیا۔میری یہاں آمد جامعہ پنجاب کے بک فیئر میں ہوئی تھی۔ اس جامعہ کے بک فیئر کی بڑی دھوم ہے۔ علامہ عبد الستار عاصم کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ بک فیئر جہاں کہیں بھی ہوتے ہیں، کوئی ماحول نہیں بنتا۔ وہ سبب اس کا یہ بتاتے ہیں کہ ایکسپو سینٹر سمیت جہاں کہیں بھی ایسی سرگرمی ہوتی ہے، کتاب خواں اور کتاب ساز یعنی پبلشر، دونوں کے لیے زحمت بن جاتی ہے کیوں کہ منتظمین زیادہ سے زیادہ پیسہ کھینچنے کے چکر میں ہوتے ہیں لہٰذا بات بن نہیں پاتی۔ کہتے سب ہیں کہ کتاب مر رہی ہے لیکن کتاب کو زندگی دینے کی فکر کسی کو نہیں۔ کم از کم حکومت ہی فکر کرے اور کتاب میلوں میں اسٹال لگائے والوں کو مالی آسودگی فراہم کر دے یعنی ان پر فیسوں کا بوجھ نہ لادے تو کچھ بات بنے۔ ان کا خیال ہے کہ  پنجاب یونیورسٹی کے کتاب میلے میں یہ بات نہیں لہٰذا کتاب خواں اور کتاب ساز دونوں خوشی خوشی یہاں آتے ہیں یوں کتابوں کی خوشبو سے قلب و روح کو معطر کرتے ہیں۔ دو ایک برس پہلے ڈاکٹر خالد محمود کی سرپرستی میں یہ میلہ ہوتا تو دل والے خوشی سے نہال ہو جاتے تھے۔ اب یہ جامعہ  ڈاکٹر سید محمد علی کی زیر قیادت ہے تو سچ یہ ہے کہ فرد کے بدلنے سے  روایت میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ توقع کی جا رہی ہے کہ ان کا  قائد اعظم یونیورسٹی کا تجربہ اور علم دوستی یقینا اس جامعہ اور کتاب دوستوں کے کام آئے گی، ان شا اللہ۔ خیر میری یہاں آمد سے کتاب میلے کے طفیل ہوئی علامہ صاحب نے اس موقع پر مصنفین سے ملاقاتیں اور باتیں کے عنوان سے پروگرام ترتیب دے رکھا تھا۔ اس پروگرام میں شرکت تو بعد میں ہوئی، اس سے پہلے کچھ دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔ یہ ملاقات ویسی ہی تھی جسے استاد ذوق نے خضر و مسیحا کے ملنے سے بھی بلند درجہ دے رکھا ہے۔  ہم لوگ کم از کم  چالیس برس کے بعد ہی ملے ہوں گے۔ میری لاہور آمد کا سن کر برادر محترم ڈاکٹر ابو الوفا نے حکم دیا کہ جیسے ہی تم یہاں پہنچو گے، میری تحویل میں ہو گے۔ بس، انھوں نے مجھے پکڑا اور سیدھے ایگزیکٹو کلب پہنچے۔ ابو الوفا بھائی عربی کے متبحر عالم ہیں۔ ان کے والد گرامی مولانا عبد اللہ علوی ایک ادارہ ساز بزرگ تھے جنھوں نے سرگودھا میں جامعہ عربیہ قاسم العلوم نامی ایک  دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی، شہر جس کی برکات سے آج بھی فیض یاب ہو رہا ہے۔             ایگزیکٹو کلب میں جمشید بھائی موجود تھے۔ جمشید علی خان ان دنوں الخدمت کے کار پردازان میں سے ایک ہیں۔ ان سے تو ملاقات رہتی ہے، اگر چہ اس میں بھی زیادہ کردار ان کا ہوتا ہے لیکن اسد چغتائی بھائی، اللہ انھیں تندرست و توانا رکھے بھائی ابوالوفا کی طرح کوئی چالیس برس کے بعد ان سے ملاقات ہوئی ہے۔ ہماری دوستیاں کالج کے زمانے میں ہوئیں۔ زندگی کی دھوپ چھاؤں میں ہم لوگ یہاں وہاں بکھر تو گئے لیکن دلوں کی قربتیں برقرار رہیں۔ اس  شام جب ہم نے ایگزیکٹو کلب کے شبنمی لان میں اپنی اپنی نشستیں سنبھالیں تو بات وہیں سے شروع ہوئی، سرگودھا کے نیم دیہی نیم شہری ماحول میں جہاں سے ٹوٹی ہو گی۔             مخملیں ہاتھوں والے اسد چغتائی یوں بھی سنجیدہ اور متین مزاج رکھتے ہیں لیکن اب ان کی گفتگو میں تھوڑی بزرگی اور بہت سا تدبر پیدا ہو چکا ہے۔ وہ چلتے ہیں تو اپنے والد گرامی ڈاکٹر محمد اسلم چغتائی کی ہو بہ ہو تصویر لگتے ہیں جو مولانا مودودی کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے۔ اسد بھائی نے لڑکپن کی بہت سی حسین یادوں کو تازہ کیا۔ اسی دوران میں انھیں ایک بڑی دل چسپ یاد آئی۔ اسد نے بتایا کہ ایک روز جب وہ اسکول سے لوٹے تو ان کے والد نے کہا کہ بستہ رکھو ادھر آؤ۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک بزرگ بڑی رغبت کے ساتھ  ڈبل روٹی کے ساتھ مکئی کے ساگ سے لطف اندوز ہو رہا ہے اور ٹھہر ٹھہر کر باتیں کیے جاتا ہے۔ یہ چودہری محمد علی تھے، پاکستان کے وہ وزیر اعظم جنھیں اس ملک کو پہلا آئین دینے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ کتنا شان دار زمانہ تھا۔ سیاست داں ہوٹلوں میں نہیں ٹھہرتے تھے، دورے پر نکلتے تو دوستوں کے یہاں قیام کرتے۔ اس سے کوئی فرق نہ پڑتا کہ جس کے ہاں وہ پہنچے ہیں، اس کا تعلق ان کی جماعت سے ہے یا نہیں جیسے چودہری صاحب نظام اسلام پارٹی کے قائد اور بانی تھے لیکن ان کا قیام جماعت اسلامی کے بانی رکن کے گھر میں ہوا۔ اسد بھائی نے یاد کیا کہ اس روز اس بزرگ مہمان نے بتایا کہ آئین سازی کے دوران میں انھیں کن کن کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا۔             یادوں سے یادوں کو مہمیز ملتی ہے۔ یہی کام اس محفل میں بھی ہوا۔ جمشید بھائی کو بھی بہت کچھ یاد آ گیا۔ جمشید بھائی ہم سب سے سینیئر ہیں اور سرگودھا کی چلتی پھرتی تاریخ ہیں۔ صاحب قلم  ہیں، کسی روز  قلم لے کر بیٹھ گیے دبستاں رقم کر دیں گے۔ ان دنوں البتہ وہ گفتگو سے لطف لیتے ہیں۔ انھیں تحریک ختم نبوت کے دن یاد آئے۔ سلیم احمد فاروقی مرحوم اس زمانے میں انبالہ مسلم کالج کے اسٹوڈنٹس یونین کے صدر ہوا کرتے تھے جنھیں تحریک کے دوران میں گرفتار کر کے تھانہ سٹی میں بند کر دیا گیا۔ جمشید ان کا حال لینے تھانے پہنچے تو انھیں بھی دھر لیا گیا اور اگلی صبح مقامی جیل منتقل کر دیا گیا۔ اس بیان میں مجھے کوئی کڑی کم لگی تو میں نے پوچھا، کیا صبح ریمانڈ کے لیے پیش نہیں کیا گیا؟ یہ سوال غضب ڈھا گیا۔ بتایا کہ اس زمانے میں ریمانڈ بھی بس تکلف ہی تھا۔ پولیس کاغذ لے کر مجسٹریٹ کے دفتر پہنچتی، وہ دستخط کر دیتا۔ لیجئے ریمانڈ ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ سیاسی کارکن کے لیے آزمائش کے دن تو وہ تھے، آج کل تو وہ وی آئی پی ہے لیکن پھر بھی مظلومیت کا ڈھول پیٹتا ہے۔ خیر، جمشید بھائی نے بتایا کہ جس روز انھیں جیل منتقل کیا گیا، وہ جمعے کا دن تھا۔ جیل میں جمعے کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا اور شہر سے ایک مولوی صاحب خطبہ دینے کے لیے پہنچتے تھے۔ نوجوانی کے دن بھی خوب ہوتے ہیں۔ جمشید بھائی اور سلیم فاروقی کا ظاہر ہے کہ آتش جواں تھا، ان کے ذہن میں ایک بات آئی اور انھوں چٹ لکھ کر مولوی صاحب کو بھیج دی۔ انھوں نے چٹ پڑھی اور اعلان کیا کہ خوش قسمتی سے ہمارے درمیان ختم نبوت کے قیدی موجود ہیں، آج جمعے کا خطبہ وہ دیں گے، یوں اس روز جیل کی مسجد میں ختم نبوت کے جرم میں پکڑے جانے والوں نے ختم نبوت ہی کے موضوع پر خطبہ دیا۔ یوں یہ قیدی قیدیوں کی آنکھ کا تارا بن گئے، لوگ ان کے ہاتھ پاؤں چومنے لگے۔ یہ دیکھ کر جیل حکام کی سٹی گم ہوئی اور قیدیوں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا پھر رہائی کا حکم آگیا۔ کیسے وہ شان دار زمانے تھے اور کیسی دل چسپ ان کی یادیں ہیں۔ ناشتے پر میں نے جتنی بدپرہیزی کی تھی ، اس کا خوف ان شان دار یادوں نے مٹا ڈالا۔ اب خواہش یہ ہے کہ جمشید صاحب کاغذ قلم لے کر بیٹھیں اور اپنے عہد کو سپرد قلم کر دیں۔ یہ اپنے عہد کی گواہی ہوگی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل