Monday, July 14, 2025
 

تیزی سے بڑھتی آبادی سنگین چیلنج، وسائل کم ، مسائل زیادہ ہوتے جا رہے ہیں!!

 



11 جولائی کو ہر سال دنیا بھر میں آبادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد آبادی کے بڑھنے سے پیدا ہونے والے مسائل کا جائزہ لینا اور ان کے حل پر زور دینا ہے۔ اس سال آبادی کا عالمی دن نوجوانوں سے منسوب کیا گیا ہے کہ انہیں درست آگاہی اور سہولیات دی جائیں تاکہ وہ اپنے خاندان کے حوالے سے سمجھداری کے ساتھ فیصلہ کر سکیں۔ پاکستان اس وقت 24 کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ دنیا کا 5واں بڑا ملک بن چکا ہے ، اگر آبادی میں اضافے کی یہی شرح قائم رہی تو 2050ء میں بھی یہ درجہ برقرا ر رہے گا اور اگر آبادی کے تناسب سے وسائل میں اضافہ نہ ہوا تو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہوگا جس کے باعث ہم غذائی قلت، تعلیم، صحت، ہسپتال ، پانی کی کمی، بے روزگاری سمیت بدترین مسائل کا شکار ہوجائیں گے۔حکومت تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے جڑے مسائل پر قابو پانے کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے، اس کا جائزہ لینے کیلئے ’’آبادی کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔ ڈاکٹر نائلہ الطاف (ڈائریکٹر ہیلتھ اینڈ پاپولیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب) آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے مگر ہمارا رقبہ کم ہے۔ بھارت اور چین میں بھی آبادی زیادہ ہے لیکن ان کا رقبہ بھی زیادہ ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے اثرات ہمارے تمام شعبہ ہائے زندگی اور وسائل پر پڑ رہے ہیں۔ پانی، بجلی، سڑکیں، سکول، ہسپتال سمیت ہر چیز کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ آبادی بھی بڑھ رہی ہے۔ ایسے حالات میں صدر پاکستان کی ویژن پر ہمارا بیانیہ ’’توازن‘‘ ہے کہ آبادی اور وسائل میں توازن قائم کیا جائے۔ یہ گھر سے لے ملکی سطح تک ضروری ہے کہ والدین اولاد کے بارے میں فیصلہ لیتے وقت وسائل کو لازمی مدنظر رکھیں، اگر گھر سے توازن خراب ہوگا تو اس کا اثر پورے معاشرے اور ملک پر پڑے گا۔ پاکستان اسلامی ملک ہے لہٰذا یہاں چین کی طرز پر قانون کے ذریعے بچوں سے منع نہیں کیا جاسکتا۔اب تو دنیا بھی یہ کہہ رہی ہے کہ بچے ، والدین کا بنیادی حق ہے، انہیں اس سے محروم نہیں کیا جاسکتا لیکن والدین کو آگاہی دینا اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ لینے کی ترغیب دینا ضروری ہے۔ اگر ایسا ہوجائے اور والدین وسائل اور خاندان میں توازن قائم کرلیں تو ملک کے بیشتر مسائل حل ہوجائیں گے۔ فیملی پلاننگ پر حکومت کی خصوصی توجہ ہے۔ اس ضمن میں ورلڈ بینک کے تعاون سے پنجاب فیملی پلاننگ پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے۔ اب محکمہ بہبود آبادی اور محکمہ صحت کو یکجا کر دیا گیا ہے جس کے بعد سے معاملات میں بہتری آرہی ہے، ہم ہر سطح پر فیملی پلاننگ کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔اب وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کے صحت کے تمام مراکز، کلینک آن وہیلز سمیت صوبے بھر کے چھوٹے، بڑے تمام ہسپتالوں میں فیملی پلاننگ کے حوالے سے سہولیات میسر ہیں۔ کلینک آن وہیلزکے ذریعے لوگوں کو ان کے گھر کی دہلیز پرصحت کی دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ فیملی پلاننگ کی سروسز بھی دی جا رہی ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہمارے ملکی وسائل میں بھی اضافہ ہوتا ہے، حکومت ہر سال ترقیاتی منصوبوں کے لیے خطیر رقم خرچ کرتی ہے لیکن آبادی میں اضافے کی وجہ سے ڈیمانڈ مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت آبادی میں اضافے کی شرح 2.1 فیصد ہے۔ 2023 ء کی مردم شماری کے مطابق ملکی آبادی 24 کروڑ سے زائدہے جس میں سے 12 کروڑ سے زائد آبادی پنجاب کی ہے لہٰذا نصب آبادی والے صوبے کو وسائل زیادہ درکار ہیں اور اسے چلانا بھی یقینا ایک چیلنج ہے تاہم وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر پنجاب کے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ رواں برس آبادی کے عالمی دن کا فوکس نوجوانوں پر ہے۔ ہم نے اس سال کا موضوع ’’باخبر نوجوان، خوشحال پاکستان‘‘رکھا ہے۔نوجوان مستقبل کے والدین ہیں لہٰذا اگر یہ آگاہ ہوگے تو بہتر فیصلے لیں گے جس سے یقینا آبادی اور وسائل میں توازن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس حوالے سے سوشل بیہیوئرل چینج سٹرٹیجی بنائی گئی ہے جس کے تحت میڈیا اور سوشل میڈیا پر آگاہی مہم، اشتہارات اور خصوصی پروگرامز چلائے جا رہے ہیں۔ ریڈیو کے ذریعے دور دراز علاقوں میں آگاہی پیغامات نشر کیے جا رہے ہیں اور اس طرح میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے ایک بھرپور آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں خصوصاََ یونیورسٹیز میں کلینکل سائیکالوجسٹ کے خصوصی لیکچرز کرائے جاتے ہیں تاکہ نوجوانوں کی رہنمائی کی جاسکے۔ ماضی میں آبادی کنٹرول کرنے کیلئے والدین کی مالی معاونت بھی کی جاتی تھی لیکن اب دنیا اس کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔اب توجہ آگاہی اور سہولیات دینے پر ہے۔ مانع حمل کی سہولیات کے استعمال میں پاکستان بہت پیچھے ہے۔ اس وقت 44 فیصد افراد اس کا استعمال کرتے ہیں جبکہ 15 فیصد افراد استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی وجہ سے نہیں کر پاتے لہٰذا ابتدائی طور پر ہمارا فوکس ان 15 فیصد پر ہے۔ عالمی اداروں کی مدد سے اس حوالے سے پروگرام چلایا جا رہا ہے، 2030ء تک ہمارا ٹارگٹ کنٹرا سیپٹیوز کے استعمال کو60 فیصد تک لے کر جانا ہے۔ اس ضمن میں ’اوور دا کاؤنٹر‘‘ کے مشن پر کام جا رہی ہے۔ فارمیسی کی سطح تک کنٹراسیپٹیوز کی دستیابی یقینی بنائی جا رہی ہے۔ ابتداء میں میانوالی، گوجرانوالہ اور جنوبی پنجاب کے اضلاع سمیت زیادہ آبادی والے 10 اضلاع میں فارمیسیز پر کنٹراسیپٹیوز کی رسائی یقینی بنادی گئی ہے، اب اس کا دائرہ کار پورے صوبے میں پھیلایا جائے گا۔آبادی جیسے مسئلے پر قابو پانے کیلئے ہمیں لوگوں کی سوچ اور رویے بدلنا ہوں گے۔ اس حوالے سے مذہبی سکالرز کو آن بورڈ لیا جا رہا ہے۔ مرحلہ وار 12، 12، 12 اضلاع میں social opinion leaders عوام کو فیملی پلاننگ اور آبادی سے جڑے مسائل کے بارے میں آگاہی دیں گے ۔ علماء کرام جمعہ کے خطبات اور نکاح کے وقت لوگوں کو لازمی آگاہی دیں گے کہ وہ وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے خاندان کے بارے میں فیصلہ کریں۔ آبادی کے عالمی دن کی مناسبت سے میرا نوجوانوں کو یہ پیغام ہے کہ زندگی بہت خوبصورت ہے اگر اس میں توازن ہو لہٰذا اپنے خاندان کے بارے میں فیصلہ لیتے وقت اپنے وسائل کو خاص طور پر مدنظر رکھیں، اگر توازن قائم رہے تو زندگی حسین رہتی ہے لیکن اگر یہ بگڑ جائے تو نہ صرف آپ اور آپ کے خاندان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا بلکہ اس کا اثر ملک پر بھی پڑے گا۔ ہمیں اس وقت آبادی کی شرح نمو میں کمی لانی ہے، ایک مرتبہ وسائل اور آبادی میں توازن قائم ہوگیا تو ملک خوشحال ہو جائے گا۔ بشریٰ خالق (نمائندہ سول سوسائٹی) 11 جولائی کو دنیا بھر میں علامتی طور پر آبادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جاسکے کہ دنیا کی آبادی کس رفتار سے بڑھ رہی ہے اور موجودہ آبادی کو کیا حقوق مل رہے ہیں، کونسا طبقہ زیادہ تعداد میں ہے اور کیا وہ دنیا میں موجود وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے یا اس کے حصے میں صرف محرومیاں آرہی ہیں۔ د نیا بھر میں اس وقت نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے لہٰذا اس سال عالمی دن کا موضوع نوجوانوں کے حوالے سے ہے۔ نوجوان کسی بھی ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں، اگر ان کی تعلیم و تربیت اور ہنر پر صحیح معنوں میں خرچ کیا جائے تو یہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں یہ بات ہو رہی ہے کہ نوجوانوں کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے، ان کے پاس تعلیم ، ہنر، سازگار ماحول اوروہ تمام وسائل ہونے چاہئیں جن کے ذریعے وہ اپنا مستقبل سنوار سکیں ۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے خطے میں چوتھا جبکہ دنیا میں پانچواں بڑا ملک ہے۔ اس وقت ہماری آبادی 25 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، اگراسی طرح ہی آبادی بڑھتی رہی تو 2050ء تک ہم ’ٹاپ 5‘ میں ہی رہیں گے۔ قدرتی آفات و دیگر چیلنجز کی صورت میں بہت لوگ متاثر ہوتے ہیںجن میں خواتین، نوجوان اور بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں خواتین کی زیادہ تعداد سکول نہیں جاتی، ان کی صحت کا نظام بھی زیادہ بہتر نہیں ہے،پبلک ہیلتھ سروسز کا انفراسٹرکچر اچھا نہیں ہے۔ آبادی کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ قدرتی طور پر کرہ ارض پر خاطر خواہ وسائل موجود ہیں جن سے انسانی زندگی بہترانداز میں بسر ہوسکتی ہے لیکن اگر ان وسائل پر طاقتور قابض رہیں گے تو بہت سارے طبقات محروم رہ جائیں گے لہٰذا وسائل کی منصفانہ تقسیم انتہائی اہم ہے۔ آبادی پر قابو پانے اور مرد و خواتین کی صحت اور زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیملی پلاننگ کے منصوبے ہونے چاہئیں ۔ فیملی پلاننگ کے حوالے سے ضروری پراڈکٹس کو ٹیکس فری ہونا چاہیے تاکہ وہ لوگوں کو با آسانی دستیاب ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیہی اور شہری علاقوں میں معاشی ناہمواری اور عدم توازن کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ تعلیم، صحت، روزگار سمیت دیگر اقدامات یکساں طور پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ملکی بجٹ میں سوشل سپینڈنگ کیلئے مناسب رقم مختص اور اس کی منصفانہ تقسیم بھی ہونی چاہیے تاکہ تمام لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ہم صرف یہ بات کہہ کر آگے نہیں بڑھ سکتے کہ وسائل کم ہوگئے ہیں لہٰذا آبادی کو بھی کم کیا جائے بلکہ جتنے وسائل ہیں ان کی تقسیم اور استعمال کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وسائل پر چند لوگ قابض ہیں، وہی اس سے مستفید ہو رہے ہیں اور ملک کا ایک بڑا حصہ ان سے محروم ہے اور یہاں غربت میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ ہماری زیادہ آبادی صرف کھانے والی نہیں بلکہ کمانے والی بھی ہے لہٰذا ہمیں اس سوچ کے ساتھ بھی معاملات کو دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی مسائل میں کمی لائی جاسکے۔ شاہنواز خان (نمائندہ سول سوسائٹی) آبادی میں ہوشربا اضافہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ساتویں مردم شماری کے مطابق ملکی آبادی 24 کروڑ 95 لاکھ افراد سے تجاوز کر چکی ہے اور پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے جبکہ ملکی آبادی میں سالانہ ڈھائی فیصد کے حساب سے اضافہ جاری ہے جو کہ عالمی سطح پر آبادی میں سالانہ اضافے کی اوسط شرح سے دو گنا ہے۔ آبادی میں یہ ہوشربا اضافہ ملکی وسائل پر مزید دباؤ کا باعث بن رہا ہے۔ پہلے ہی ملک کی غذائی ضروریات مقامی پیداوار سے پوری نہیں ہو پا رہیں‘ روزگار کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ توانائی کی کھپت اتنی زیادہ ہے کہ بجلی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ تعلیمی اداروں اور مراکزصحت کی تعداد بھی ناکافی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ملکی آبادی میں نوجوانوںکا حصہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس وقت قریب دو تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے‘ جنہیں تعلیم‘ تربیت اور روزگار کے مواقع چاہئیں مگر کمزور معیشت کے سبب یہ سب نہیں ہو پا رہا۔ بڑھتی آبادی حقیقی معنوں میں اس وقت ام المسائل بن چکی ہے جس پر قابو پانے کیلئے جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں آبادی کے تناسب کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ تعلیم کی کمی، تولیدی صحت سے متعلق آگہی پروگرام کا نہ ہونا، امراء کے ہاں وراثت، غرباء کے ہاں نان نفقے کے ذرائع کی مد میں بچوں کی پیدائش، سیاسی عزم کی خامیاں، صنفی امتیازات، اوردیگر شامل ہیں۔ پاکستان میں وسیع خاندان کا تصور ہماری ثقافت کا حصہ ہے، قبائل میں بڑے خاندان کو ایک نعمت سمجھا جاتا ہے لیکن یہ نہیں سوچا جاتا کہ ان کی خوراک، تعلیم اور دیگر ضروریات زندگی کو کیسے پورا کیا جائے گا، ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ دنیا بھر میں آبادی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے کئی مسائل نے جنم لیا ہے، جن میں غربت، بے روزگاری، سماجی اضطراب، مہنگائی اور جرائم شامل ہیں۔ پاکستان میں آبادی کا بڑھنا ایک چیلنج ہے، جس کی وجہ سے معاشی اور معاشرتی مسائل، جیسے فی کس آمدنی میں کمی، تعلیم، صحت سمیت کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ یہ مسائل ایک ملک کی خود کفالت اور ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہر سال بارہ ہزار خواتین دوران حمل و زچگی موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ ایک ہزار بچوں میں سے باسٹھ بچے ایک سال کی عمر سے پہلے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک خاتون کے بچوں کی اوسط شرح 3.6 فیصد ہے جو جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔مانع حمل کے طریقوں سے آگاہی نہ ہونے کے باعث پاکستان میں ہر شادی شدہ جوڑا غیر ارادی طور پر ایک بچہ پیدا کرتا ہے جبکہ 17.3 فیصد جوڑے خاندانی منصوبہ بندی کی خواہش کے باوجود اس پر عمل نہیں کر پاتے۔ آبادی میں اضافے کی یہ رفتار ایک طرف تو بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن اگر اس آبادی میں شامل نصف سے زائد نوجوانوں کو رہنمائی فراہم کی جائے اور انہیں ہنرمند بنایا جائے تو یہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔   

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل