Monday, July 21, 2025
 

15 جولائی کا جادو

 



            طے تو یہی پایا تھاکہ ظہرانے کے بعد ہم سو رہیں گے لیکن اس کی نوبت نہ آ سکی۔ ڈاکٹر زاہد مجید کمرے میں چلے گئے اور میں شہزادے کی مسجد کی طرف بڑھا  جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ہاتھی کے چار پاؤں پر کھڑی ہے۔ ابھی راستے میں ہی تھا کہ عاطف بٹ کا فون آ گیا کہ وہ پہنچ رہے ہیں۔ عاطف پاکستانی صحافی ہیں۔ ذہین آدمی ہیں۔ جلد ان کی سمجھ میں آ گیا کہ رزق کے لیے اب اس پیشے میں کچھ نہیں رکھا لہٰذا رک سیک کاندھے پر رکھ کر نکل کھڑے ہوئے۔ حضرت امیر مینائی نے جانے کس کیفیت میں کہا ہو گا  ع عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا             عاطف کے پاں استنبول میں ٹک گئے اور انھیں یہاں عزت بھی بہت ملی۔ اب وہ یہاں پاکستانی اشیائے خور و نوش کی تجارت کرتے ہیں اور صرف ترک بھائیوں کو پاکستانی چاول کی لذت سے آشنا نہیں کرتے، بلغاریہ اور آگے تک اسے برآمد بھی کرتے ہیں ۔ دکھی صرف اس بات پر ہیں جو کچھ وہ بیچتے ہیں، وہ ایران کے راستے یہاں پہنچتا ہے۔ خیر یہ طویل کہانی ہے۔ ذکر یہ کرنا تھا کہ ڈاکٹر زاہد مجید جس دم نیند لے رہے تھے، میں یہاں وہاں بھٹک رہا تھا۔ اسی آوارہ خرامی میں ڈاکٹر راشد سے رابطہ ہو گیا۔             ڈاکٹر راشد استنبول یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور یہاں آنے والوں کے لیے سفید چھڑی۔ راستوں، رابطوں اور زبان کی دشواریوں کے باعث گاڑی جہاں رک جاتی ہے، یہ راہ نما بن جاتے ہیں۔ محبت کرنے والے راشد سے ملاقات نے شاد کر دیا۔ استنبول کے سورج نے شرماتے ہوئے گوشۂ عافیت میں پناہ لی تو اس دھندلے میں شہر کی کیفیت بدل گئی۔کچھ لوگ  شہزادے باشی کی مسجد کی جانب چل دیے جو فلاح کی نوید سنا رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ سڑکیں اور پارک بھی آباد ہو رہے۔ دھندلکا خنک ہو چکا تھا اور ہم لوگ ڈھیلی جیکٹیں پہنے ڈاکٹر راشد کی پیروی کر رہے تھے۔ یکایک وہ ٹھٹھکے اور کہنے لگے: ' یہ دیکھا آپ نے؟' ' کیا نہیں دیکھا ہم نے؟'             میں نے گھبرا کر سوال کیا۔ ہم اس وقت بیلیدیسی یعنی بلدیہ کی شان دار عمارت کے پہلو سے گزر رہے تھے جس کی حفاظت دھاڑتا ہوا شیر کرتا ہے۔ بلدیہ پر شیر کی موجودگی سے مسلم لیگ ن اور اس کے قائد کی یاد آئی لیکن ان دنوں اس بلدیہ کی پیش وائی میاں نواز شریف کے دوست صدر رجب طیب اردوان کے مخالف کرتے ہیں شاید اسی سبب سے شہر کی مسجدوں پر پہلے والی توجہ نہیں ہے ورنہ ایک زمانہ تھا، شہر  رجب طیب اردوان کی تصویروں سے سجا رہتا تھا اور مسجدوں کے قالین کے رنگ اڑے ہوئے اور پھول بوٹے مرجھائے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔ خیر، ڈاکٹر راشد کا اشارہ کسی اور طرف تھا۔             بلدیہ کی عمارت سے متصل ایک مختصر سا چمن زار ہے جس میں تازہ پانی کی چھوٹی سی جھیل آنکھوں کو ٹھنڈا کرتی ہے۔ جھیل کے بالکل بائیں جانب شیشے کے ایک کمرے میں پانچ سات لوگ دکھائی دیتے تھے۔ ان میں کوئی چشمے پر جھکا ہوا ہے، کسی کے ہاتھوں کے پیالے سے پانی ٹپک رہا ہے، کوئی منھ دھو رہا ہے اور کسی کے ہاتھ کہنیوں پر ہیں۔ ہم یہ منظر بے دھیانی سے دیکھتے ہوئے گزر گئے ہوتے اگر ڈاکٹر راشد ہمیں یہاں سوال نہ کرتے۔ ہم ابھی ان لوگوں کو دیکھ ہی رہے تھے کہ راشد کہنے لگے کہ پہلے یہ تصویر دیکھ لیجیے۔ یہ تصویر بھی ان ہی لوگوں کی تھی۔ حیرت بڑھ گئی۔ اب سوال پوچھنا ضروری تھا کہ اے بندہ خدا! یہ کیا معمہ ہے؟ ' معمہ کیا' ڈاکٹر راشد نے ہنستے ہوئے کہا۔ یہ اون بیش تیم موز کے مجاہدین ہیں۔ مجھے سب کہانی یاد آ گئی۔ اون بیش تیم موز کا مطلب ہے 15 جولائی۔ ترک اس دن کو یوم قومی یک جہتی اور جمہوریت کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ وہی دن ہے جس روز ترک فوج نے بغاوت کر کے صدر رجب طیب اردوان کی مقبول حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔ اس دن لوگ جوق در جوق سڑکوں پر نکل آئے تھے اور انھوں نے اپنی حکومت کو بچا لیا تھا۔             بلدیہ کے قرب و جوار میں رہنے والوں نے جب دیکھا کہ سڑکیں ٹینکوں کے بوجھ سے کانپ رہی ہیں اور ان کی توپوں کارخ انسانوں کی طرف ہے تو لوگوں کا ایک گروہ بھاگتا ہوا اسی مصنوعی جھیل پر آ پہنچا اور وضو بنانے لگا۔ ان لوگوں کا ارادہ تھا کہ وہ ٹینکوں کے سامنے لیٹ جائیں گے پھر جو ہو سو ہو، جان کی پروا نہیں۔ بس اسی خیال سے انھوں نے وضو بنانا ضروری سمجھا، اپنی زندگی کا آخری وضو۔ یہ وضو بنانے والے ان ہی لوگوں کے مجسمے تھے۔ کہنے کو تو یہ مجسمے تھے لیکن دیکھنے والے کی آنکھ دھوکا کھاتی تھی۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ جو تالاب میں جھکا ہوا ہے، وہ ابھی سیدھا ہو جائے گا اور جس کے ہاتھوں کے پیالے میں پانی ہے،ہیوہ پہلے تین کلیاں کرے گا پھر  منھ دھوئے گا۔ مصور نے اپنے کمال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اس کے بس میں ہوتا تو وہ ان میں روح بھی پھونک دیتا۔ بلدیہ والوں نے جان ہتھیلی پر رکھنے والے ان مجاہدوں کی اصل تصویر بھی فریم کر کے لگا دی ہے اور مجسمے بنا کر اس قیمتی لمحے کو مجسم بھی کر دیا ہے۔'             یہ لوگ بچے یا گئے؟ ' میں نے رشک کے جذبات میں ڈبکی لگاتے ہوئے سوال کیا۔ راشد بولے کچھ نہیں۔ ہمیں پکڑ کر ایک قریبی دیوار کی طرف لے گئے جہاں سیکڑوں چھوٹی چھوٹی تصاویر استنبول کی ڈھلتی ہوئی شام میں دیے کی لو کی طرح روشن تھیں۔ 15 جولائی 2016 کو اسی مقام پر جان دے کر جمہوریت کو بچانے والے شہید ہمارے سامنے تھے۔ اب کوئی سوال ہماری زبان پر نہ تھا۔ ڈاکٹر زاہد مجید معلم ہی نہیں مدبر بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی سوچتی ہوئی آنکھیں جھپکیں اور کہا:             ' قوم کے جذبوں کو یوں علامت بنا کر نقش کر دیا جائے تو جذبے تحریک بن جاتے ہیں پھر کوئی طالع آزما ان جذبوں کو آزمانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔'

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل