Loading
چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پی اے سی نے شوگر ملز مالکان کے ناموں کی فہرست فوری طلب کر لی جب کہ حکومت شوگر ملز مالکان کے نام فراہم کرنے سے گریزاں رہی۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ شوگر ملز مالکان کو برآمد کیلئے سبسڈی کیوں دی گئی، ریاض فتیانہ نے کہا کہ کیا وجہ تھی کہ راتوں رات ایس آر او جاری کر کے ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی۔ معین پیرزادہ نے کہا کہ ملک کے صدر اور وزیراعظم عوام کو لوٹ کر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں، فساد کی جڑ شوگر ایڈوائزری بورڈ ہے، شوگر مافیا حکومتوں کا حصہ ہے۔ حکومت شوگر ملز مالکان کے نام فراہم کرنے سے گریزاں رہی، چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ہم نے آپ سے شوگر ملز مالکان کی تفصیلات طلب کی تھیں؟ کہاں ہیں تفصیلات؟ سیکرٹری صنعت نے کہا کہ ہمارے پاس شوگر ملز کی فہرست ہے۔ پی اے سی نے شوگر ملز مالکان کے ناموں کی فہرست فوری طلب کر لی اور کہا کہ شوگر ملز نہیں مالکان اور ڈائریکٹرز کی تفصیلات دیں۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ کچھ دیر میں شوگر ملز مالکان کے نام نہ آئے تو تحریک استحقاق لائیں گے، حکام وزارت صنعت و پیداوار نے کہا کہ گزشتہ سال ملک میں چینی کی پیداوار 76 لاکھ 60 ہزار میٹرک ٹن تھی، اس میں سے 13 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ چینی سرپلس رہی۔ حکام وزارت صنعت و پیداوار نے کہا کہ پانچ لاکھ میٹرک ٹن چینی اگلے سال کیلئے ریزرو رکھی گئی، وفاقی کابینہ اور ای سی سی نے تین مراحل میں 7 لاکھ 90 ہزار ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی، چینی برآمد کرکے 40 کروڑ ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ کمایا گیا۔ بریفنگ میں کہا گیا کہ جب چینی ایکسپورٹ کی گئی مقامی مارکیٹ میں قیمت 143 روپے کلو تھی، اس وقت مارکیٹ میں قیمت 173 روپے فی کلو ہے، مارکیٹ میں قیمت بڑھنے پر وزیراعظم نے ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل