Loading
غزہ میں صیہونی دہشتگردی وبربریت کے ساتھ بھوک و پیاس کا ننگا ناچ جاری ہے، اس وقت اہل غزہ کے خلاف سب سے بڑا صیہونی ہتھیار خوراک بن چکا ہے، غاصب اسرائیلی فوج نے غزہ میں خوراک کی ترسیل کا سلسلہ مسلسل کئی ماہ سے روک رکھا ہے۔ بھوک اور پیاس کے نتیجے میں سیکڑوں شہری، جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے، بھوک سے شہید ہو چکے ہیں۔ ظلم و بربریت کی انتہا ہے کہ کھانے پینے کے امدادی مراکز پر بھی مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی مجرمانہ اور امت مسلمہ کی ذلت آمیز خاموشی کے باعث غزہ کے مظلوم عوام دہائی دے رہے ہیں کہ نسل کشی صرف بمباری سے نہیں خوراک اور پانی کی بندش سے بھی ہوتی ہے جو غزہ میں جاری ہے۔ اسرائیلی محاصرے کے نتیجے میں غزہ کی 90 فیصد آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ’’میں اللہ کے پاس جا رہا ہوں، سب کچھ بتانے‘‘ یہ الفاظ ایک جنگ زدہ و فاقہ زدہ بچے نے شہادت سے پہلے کہے تھے، جو اب غزہ کے ہزاروں بچوں کی صدا بن چکے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جو قحط، بمباری اور عالمی خاموشی کے درمیان صرف زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ بھوک غزہ کے بچوں، بوڑھوں، مردوں اور خواتین کے تھکن سے چور چور جسموں کو ناصرف چبھتی ہے بلکہ انھیں موت کے قریب لے جارہی ہے۔ اس وقت روئے زمین پر غزہ سے مظلوم کوئی خطہ نہیں جہاں موت کے ہزار چہرے ہیں لیکن خالی آنتوں کے پھٹنے سے جو موت ہوتی ہے اس کی مظلومیت کا نوحہ سب نوحوں پر بھاری اور حاوی ہے۔ بھوک اور پیاس سے غزہ کے بچے اور بوڑھے گر رہے ہیں اور تیزی سے موت کی آغوش میں جارہے ہیں۔ غزہ کی زمین پر بھوک کے سوا کچھ نہیں، اور آسمان سے شعلوں کے سوا کچھ نہیں اترتا۔ غزہ کے مظلوم مسلمان خوف اور قحط کی آگ میں جل رہے ہیں۔ یونیسیف کے مطابق تقریباً نصف ملین غزہ کے باشندے تباہ کن قحط کے پیمانے کے پانچویں مرحلے پر پہنچ چکے ہیں۔ دنیا کے سارے دسترخوان اب بھی انواع و اقسام کے کھانوں سے بھرے ہوئے ہیں، دور جانے کی ضرورت نہیں ارض فلسطین کے ارد گرد موجود عرب ممالک کے امراء کے دسترخوان کو دیکھ کر شرم آتی ہے تو دوسری طرف وہ دولت کے دریا میں ڈوبے ہوئے ہیں، ان ممالک میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آجائے تواستقبال پر اربوں روپے خرچ کر دیتے ہیں، ٹرمپ کے قدموں میں دولت کے ڈھیر لگا دیتے ہیں لیکن غزہ کے بھوکے پیاسے، بلک بلک کر مرتے بچوں کے لیے ان بے حس حکمرانوں کو پانی ایک بوتل بھیجنے کی ہمت بھی نہیں۔ ان کے گلوں میں مفادات کے ایسے بھاری طوق پڑے ہوئے ہیں جن کے بوجھ سے انھیں سامنے کا صاف منظر بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اہل فلسطین جو دو ارب مسلمانوں پر مشتمل ایک قوم (امت) سے تعلق رکھتے ہیں اور جو تقریباً 400 ملین آسودہ حال لوگوں(عربوں) کے ساتھ رہتے ہیں جو ایک مذہب، زبان اور شناخت رکھتے ہیں جنھیں قرآن نے ملت واحدہ قرار دیا ہے مگر ان باہمی اختلافات کی وجہ سے اہل غزہ ایک چھوٹی سی ناجائز صیہونی ریاست کی بربریت کا شکار ہیں۔ یونیسف کے مطابق، 4لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد بھوک کی انتہائی شدید حالت میں ہیں اور زندگی بچانے کے لیے فوری امداد کے منتظر ہیں۔ غزہ میں تقریباً71 ہزاربچے غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان کی بقا کے لیے غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے فوری علاج اور خوراک کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا پر آنے والی تصاویر دل دہلا رہی ہیں، کلیوں جیسے خوبصورت بچوں اور بچیوں کی کمزور پسلیاں اور بوسیدہ ہڈیاں ان تصاویر میں بھیانک صورتحال کی نشاندہی کررہی ہیں مگر آنکھوں کے نور سے محروم امت کے مسلمان حکمرانوں کو کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے کئی جال بچھائے ہیں، ایک طرف مسلسل گولہ باری اور بارودی سرنگوں کے ذریعے ان کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے، دوسری طرف جب بھوکے و پیاس کے مارے معمولی امداد کی تقسیم کے مقامات پر پہنچ جاتے ہیں تو وہاں بمباری کرکے خوراک کے بجائے موت بانٹتا ہے۔ جہاں کوئی براہ راست گولہ باری سے شہید، کوئی روٹی کا ٹکڑا پکڑتے ہوئے شہید، کوئی جوس کے ڈبے اور پانی کی بوتل تک پہنچنے سے پہلے راستے میں شہید تو کوئی اسرائیل کی طرف سے برسائے گئے شعلوں کی وجہ سے بھاگنے والوں کے قدموں تلے روندے جانے سے شہید ہوجاتا ہے۔ اسرائیلی درندوں نے خوراک کی تقسیم کے مراکز کے ارد گرد جمع ہونے والے لوگوں پر بمباری کو کھیل سمجھ رکھا ہے جس کی وجہ سے یہ مراکز غزہ میں موت کے جال کے نام سے مشہور ہو چکے ہیں۔ اس بے بسی کے عالم میں قسام بریگیڈز کے فوجی ترجمان ابو عبیدہ کی آواز نے دنیا بھرکے انصاف پسند لوگوں کے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا، ابوعبیدہ نے امت مسلمہ کے حکمرانوں، علماء کرام، سیاسی جماعتوں، تنظیموں کے ذمے داروں کو مخاطب کرکے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ "تم سب اللہ کے سامنے ہمارے مجرم ہو، تم ہر اس یتیم، اس بیوہ، زخمی، اس بے گھر اور فاقہ زدہ فلسطینی کے دشمن ہو جنھیں تم نے اپنی خاموشی سے تنہا چھوڑ دیا‘‘۔ ابوعبیدہ کا شکوہ سو فیصد درست ہے، من حیث الامت ہم سب اہل غزہ کے مجرم ہیں، ہم نے انھیں بھلادیا۔ مسلم ممالک کے حکمران تو مفادات کے اسیر ہیں لیکن عوام کو کیا ہوا؟ ہمیں جس طرح اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے تھی نہیں کی۔ ہمیں اپنی دعاؤں میں جس طرح اہل غزہ کو یاد رکھنا چاہیے تھا نہیں رکھا۔ ہم سے بہتر تو یورپ کے عوام نکلے۔ جنھوں نے انسانی ہمدردی کے ناتے اہل غزہ کے لیے توانا آواز بلند کی اور اپنی حکومتوں کو فلسطین کے حق میں کھڑا ہونے پر مجبور کردیا۔ برطانیہ اور فرانس کے بعد مزید 3 یورپی ممالک پرتگال، جرمنی اور مالٹا نے بھی فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اشارہ دے دیا۔ جرمن وزیر خارجہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ"اگر دو ریاستی عمل کے لیے مذاکرات شروع نہ ہوئے تو جرمنی فلسطین کو تسلیم کرنے کے لیے غور پر مجبور ہوگا۔ اس سے پہلے کینیڈا بھی اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں فلسطینی ریاست کو مشروط طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔گزشتہ دنوں فرانس اور دیگر 14 ممالک کی جانب سے دنیا بھر سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ بلاشبہ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے جس سے دنیا بھر کے انصاف پسند حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ فلسطین کے مسئلے کا حل صرف اور صرف انصاف کے ذریعے ہی ممکن ہے اور انصاف یہ ہے کہ فلسطین بحر سے لے کر نہر تک فلسطینیوں کا ہی ہے۔ اگر اقوام متحدہ کے اصولوں، قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں بھی دیکھ لیا جائے تو اسرائیل پر 1997کی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے کی حدود پر واپس جانا لازم ہے اور اس نے اس جنگ کے بعد جتنی فلسطینی اراضی پر قبضہ کیا ہے، اسے واگزار کرانا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذمے داری ہے۔ موجودہ جنگ کے تناظر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کی جنگی کابینہ کو جنگی جرائم کے جرم میں سزا سناکر ان کے بین الاقوامی وارنٹ جاری کرچکی ہے۔ اگر دنیا میں قانون اور انصاف نام کی کوئی شے موجود ہے تو اس فیصلے پر بھی عمل درآمد ہونا چاہیے اور مسئلہ فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل ہونا چاہیے۔ امت مسلمہ کے حکمرانوں کے پاس اب بھی وقت ہے وہ اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرلیں، اگر یورپ کے ممالک فلسطین کے حق میں کھل کر کھڑے ہوسکتے ہیں تو ان سے زیادہ تو آپ کی ذمے داری بنتی ہے، تمام اسلامی ممالک اسرائیل کے غیرانسانی مظالم کے خلاف جراتمندانہ قدم اٹھائیں ایسا قدم جو اہل غزہ کے زخموں پر پھاہا بنے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل