Sunday, September 07, 2025
 

پنجاب میں وائلڈ لائف سروے کا نیا مرحلہ، نباتات کی گنتی شروع

 



پنجاب میں رینگنے والے جانوروں اور پانی و خشکی دونوں میں زندہ رہنے والے جانوروں (ایمفیبینز) کا سروے مکمل کر لیا گیا ہے اور اب اگلے مرحلے میں صوبے بھر میں نباتات کا جامع سروے شروع کیا جا رہا ہے۔ لاہورکے مقامی ہوٹل میں ایک مشاورتی اجلاس ہوا جس میں پنجاب وائلڈلائف رینجرز، محکمہ جنگلات کے افسران، انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یوسی این) کے ماہرین اور مختلف جامعات کے اساتذہ نے شرکت کی اور اجلاس میں بوٹینیکل سینسز کے طریقہ کار، مدت اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر تفصیلی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دی گئی۔ یہ سروے وزیراعلیٰ پنجاب کے خصوصی انیشیٹو "پنجاب وائلڈ لائف سروے اسکیم" کا حصہ ہے، جس کا فیصلہ 2024 کے وسط میں کیا گیا تھا اور عملی طور پر اس کا آغاز جنوری 2025 میں کیا گیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پنجاب میں جنگلی حیات اور نباتات کا باقاعدہ اور بین الاقوامی معیار کے مطابق سروے کیا جا رہا ہے، اس سے پہلے صوبے میں اس نوعیت کا کوئی جامع سروے نہیں ہوا تھا، اگرچہ محدود مقامی مطالعات ضرور کیے گئے لیکن ان کا ڈیٹا بکھرا ہوا اور غیر منظم تھا۔ پروجیکٹ انچارج مدثر حسن کے مطابق سروے کا زیادہ فوکس مقامی انواع پر ہے جن میں اڑیال، چنکارہ، نیل گائے، پاڑہ ہرن، انڈس ڈولفن، پینگولین اور تلور شامل ہیں، تاہم دیگر جنگلی حیات اور نباتات کو بھی ریکارڈ کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ایک اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو سروے کی مانیٹرنگ کرے گی۔ مدثر حسن نے بتایا کہ سروے ٹیموں میں ماہرین حیاتیات، رضاکار، مقامی کمیونٹیز، جامعات کے پروفیسرز، طلبہ اور این جی اوز کے نمائندے شامل ہیں جبکہ کیمرہ ٹریپس، ڈرونز اور جی پی ایس جیسی جدید ٹیکنالوجی بھی استعمال کی جارہی ہے۔ آئی یوسی این کے نیشنل پروجیکٹ منیجر عاصم جمال نے بتایا کہ "پنجاب اس خطے کا شاید واحد صوبہ ہے جہاں منظم طریقے سے وائلڈ لائف سروے ہونے جا رہا ہے، اس سروے کے نتیجے میں وائلڈ لائف ریڈ ڈیٹا بک تشکیل دی جائے گی جسے آئی یوسی این کی گلوبل ڈیٹا بک کا حصہ بنایا جائے گا۔ عاصم جمال کے مطابق سروے کے دوران جانوروں اور پرندوں کی اقسام، تعداد، رہائش گاہوں اور انہیں درپیش خطرات سے متعلق جامع اعداد و شمار اکٹھے کیے جارہے ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے پروفیسر اور کمیٹی کے رکن ڈاکٹر عاطف یعقوب نے کہا کہ "پاکستان خصوصاً پنجاب میں پالیسیوں کے تسلسل کے بغیر یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتی، اس لیے ضروری ہے کہ مقامی کمیونٹی کو بھی شامل کیا جائے تاکہ نتائج زیادہ مؤثر اور مستند ہوں۔ انہوں نے زور دیا کہ بڑھتی ہوئی اربنائزیشن، انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ اور صنعتی پھیلاؤ کو وائلڈ لائف سروے کے ڈیٹا کے ساتھ مربوط کرنا ہوگا تاکہ ترقی ماحول دوست اور پائیدار بنائی جا سکے۔ ماہرین کے مطابق پنجاب میں اب تک 500 سے زائد انواع مختلف اوقات میں شناخت کی جا چکی ہیں جن میں سے کئی آئی یوسی این کی ریڈ لسٹ میں خطرے سے دوچار قرار دی جا چکی ہیں، ان میں نمایاں طور پر انڈس ڈولفن (شدید خطرے سے دوچار)، انڈین پینگولین (شدید خطرے سے دوچار)، تلور (خطرے سے دوچار)، سموٹرڈ کاٹ ہیر (یعنی جنگلی بلی، خطرے سے دوچار)، اڑیال اور چنکارہ (خطرے سے دوچار) شامل ہیں۔ اسی طرح کئی آبی پرندے جیسے سفید پشت والا گدھ اور لمبی چونچ والا گدھ پاکستان میں ناپید ہونے کے قریب ہیں اور ریڈ لسٹ میں شامل ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل