Monday, September 22, 2025
 

جمہوریت کے ثمرات سے محروم عوام

 



اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دنیا میں منائے جانے والے جمہوریت کے عالمی دن پر پاکستان میں بھی جمہوریت کے دعویداروں نے بڑے بڑے بیانات دیے اور جمہوریت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے اور کہا کہ آئین ہر ایک کو تحفظ دیتا ہے جب کہ ایسا ہے نہیں اور تحفظ ہر شہری کو تو نہیں خاص لوگوں کو ضرور حاصل ہے۔ کہا گیا کہ جمہوریت بنیادی حقوق کا تحفظ کرتی ہے جب کہ عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہیں ہی نہیں تو کیسا تحفظ اور کون سے بنیادی حقوق؟ بنیادی حقوق جو عوام کو آئین نے دیے ہیں وہ عوام جمہوریت کے نام پر اسمبلی ایوانوں میں بیٹھے ہیں یا وہ بااثر اہم عہدوں پر تعینات اہم سرکاری افسر ہیں جو عوام کے ٹیکسوں پر عوام پر حکمرانی بھی کر رہے ہیں اور عوام کے نام پر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور بنیادی حقوق کے لیے انھوں نے بیرون ملک وہاں کی شہریت بھی لے رکھی ہے اور اپنی فیملیز اور سرمایہ باہر منتقل بھی کر رکھا ہے اور پاکستان میں وہ عوام پر حکم چلانے کے لیے اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں۔  حکمران اشرافیہ کے ایک پیغام میں کہا گیا ہے کہ جمہوریت روشن مستقبل کی ضمانت ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ کن کا روشن مستقبل؟ کیونکہ عوام کا تو یہاں مستقبل ہے ہی نہیں، تو روشن مستقبل تو صرف ایوانوں میں موجود ان کے نمایندوں کا ہی نظر آتا ہے جن کی جب چاہے حکومت مراعات اورکئی گنا تنخواہ آئی ایم ایف سے پوچھے بغیر بڑھا دیتی ہے مگر جب عوام کو بجلی و گیس میں کچھ ریلیف دینے کی بات ہو یا سیلاب متاثرین کو بجلی بل میں رعایت دینا حکومتی مجبوری ہو تو آئی ایم ایف کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ حکومت ارکان اسمبلی کے بعد وزیروں، بیوروکریٹس اور ججز پر مہربان ہو کر تنخواہیں بڑھانا چاہے بڑھا دیتی ہے مگر اسے عوام کے بنیادی حقوق یاد نہیں آتے اور بڑے عہدوں پر تعینات ان بڑوں کو خیال آتا ہے کہ ہم تو حکومت سے مفت بجلی، گیس، پٹرول اور دیگر مراعات لے ہی رہے ہیں کچھ مراعات عوام کو بھی حکومت سے دلوا دیں کہ جنھیں مراعات کی ہم سے زیادہ ضرورت ہے اور ہم حکومت سے کہیں کہ آئین عوام کو بھی جمہوریت کے نام پر بنیادی حقوق دینے کی بات کرتا ہے تو ہمارے ساتھ ان کا بھی خیال کر لیا جائے۔ بیورو کریٹس اور ججزکا تو جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں، جمہوریت سے تعلق تو صرف عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں کا ہی بنتا ہے۔ عوام کا تو اپنے نمایندوں کو جمہوریت کے نام پر ووٹ دے کر ان سے تعلق ختم ہو جاتا ہے اس لیے منتخب نمایندے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ ایوانوں میں جا کر اپنے مفادات کو ترجیح دیں اور اپنا تحفظ کریں تو وہ متحد ہو کر کر لیتے ہیں، انھیں یہ خیال نہیں آتا کہ حکومت ہر بجٹ میں عوام پر ٹیکس لگا کر مہنگائی بڑھاتی ہے وہ بجٹ میں اس کی مخالفت ہی کر لیں تاکہ عوام کو فائدہ ہو مگر وہاں بھی وہ عوام کے بجائے حکومت کے مفادات کا ساتھ دیتے ہیں تاکہ نئے ٹیکسوں سے حکومت کی جو آمدنی بڑھے وہ آمدنی حکومت کو عوام کے بجائے ان ہی پر خرچ کرے۔  جمہوریت کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ وہاں صرف اپنی بات کرتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں۔ سرکاری دستاویزات پڑھے بغیر اس کی توثیق کر دیتے ہیں اور حکومت ان سے منٹوں میں درجنوں من پسند بل منظورکرا لیتی ہے کیونکہ ایوانوں میں یہی جمہوریت رائج ہے جس کے ثمرات سے صرف عوام ہی محروم رہتے ہیں۔ اپوزیشن کو بھی جمہوریت اس وقت یاد آتی ہے جب انھیں حکومت کی مخالفت میں شور شرابا کرنا، بجٹ و دیگر سرکاری دستاویزات پھاڑنی اور ایوان میں اچھالنی ہوں مگر جب سب کے مفاد کی بات ہو سب ایک ہو کر حکومتی مراعات قبول کر لیتے ہیں اور اپوزیشن اپنے ہفتوں کے بائیکاٹ کی مراعات اور تنخواہیں بھی وصول کر لیتی ہے اور یہ سب جمہوریت کے نام پر ہوتا ہے جس سے مستفید بھی یہ جمہوریت کے دعویدار ہوتے ہیں اور عوام محروم رہ کر اپنے نمایندوں کی طرف دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ عالمی یوم جمہوریت کے موقع پر حکمران جمہوریت کا اپنی مرضی کا چہرہ پیش کرتے ہیں کیونکہ اس جمہوریت کو حکمران اشرافیہ ترقی کی اساس قرار دیتی ہے، تو پی ٹی آئی جمہوریت کے عالمی دن پر خاموش رہتی ہے کیونکہ ان کی جمہوریت صرف اپنے بانی کی رہائی، افغان دہشت گردوں کی حمایت اور حکومتی اداروں کی مخالفت ہی جمہوریت ہے جس کی وہ جدوجہد کر رہے ہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل