Tuesday, September 23, 2025
 

بے قابو اسرائیل خطے کے امن کیلیے خطرہ بن گیا، مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا؛ ترک صدر

 



اقوام متحدہ ki جنرل اسمبلی سے جذباتی خطاب میں صدر طیب اردوان نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر خاموش رہنے والے بھی اس گھناؤنے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک صدر طیب اردوان نے اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ جنگ کو انسانیت کے لیے سیاہ ترین باب قرار دیا۔ غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ اسرائیل بے قابو ہوچکا ہے، ہم اس کے جنون کو مزید برداشت نہیں کرسکتے۔  فلسطینی نسل کشی کی مذمت کرتے ہوئے صدر اردوان نے مزید کہا کہ اسرائیل بمباری روک کر انسانی امداد کو بلا رکاوٹ غزہ میں داخل ہونے دے۔ ترک صدر نے عالمی برادری کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جارحیت، قحط اور نسل کشی پر خاموش رہے تو یہ سنگین جرم کے مترادف ہوگا۔ اسرائیل کے قطر میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دوحہ پر یہ حملہ ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل قابو سے باہر ہوچکا ہے۔ ترک صدر نے انکشاف کیا کہ اسرائیل نے نہ صرف غزہ اور مغربی کنارے بلکہ شام، ایران، یمن اور لبنان پر بھی حملے کیے جو پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ صدر طیب اردوان نے اپنی تقریر کے دوران دل دہلا دینے والی تصاویر دکھائیں جن میں بھوکی فلسطینی خواتین خالی برتن لیے کھڑی ہیں اور شدید غذائی قلت کا شکار بچے نظر آ رہے تھے۔ انھوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے عالمی قیادت سے کہا کہ اپنے ضمیر سے پوچھیں، کیا 2025 میں اس بربریت کا کوئی جواز ہو سکتا ہے؟ یہ شرمناک مناظر گزشتہ 23 ماہ سے دہرائے جا رہے ہیں۔ غزہ میں صحافیوں اور امدادی کارکنوں کے قتل پر مذمت کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی بمباری میں اب تک 250 سے زائد صحافی جان کی بازی ہار چکے ہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل ’’نسل کشی کو چھپا نہیں سکا‘‘۔ انھوں نے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی کوششوں کو سراہا لیکن تنقید کی کہ اقوام متحدہ اپنے اہلکاروں تک کو محفوظ نہ رکھ سکی۔ ترک صدر نے بتایا کہ درجنوں امدادی کارکن اور ریسکیو اہلکار بھی حملوں کے دوران شہید ہو گئے ہیں۔ فلسطین اتھارٹی کے صدر اور وفد کو اقوام متحدہ اجلاس میں شرکت کے لیے ویزا نہ دینے پر امریکا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے صدر اردوان نے افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا یہ اقوام متحدہ کے میزبان ملک کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور اس پر کون جوابدہ ہوگا۔ ترک صدر نے دنیا بھر کے ممالک سے فلسطین کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے 86 ملین شہریوں کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے لیے بھی یہاں کھڑا ہوں جن کی آوازیں دبائی جا رہی ہیں۔  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل