Loading
بچپن میں ہم اپنے مسجد امام کو والدین کا درجہ دیتے تھے کیونکہ وہ ہمیں دینی تعلیم دیتے تھے اور ہمارے والدین بھی ہمیں ان کی خدمت کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ محلے کے دکاندار اور ڈاکٹر بھی کبھی ان سے پیسے نہیں لیتے کیونکہ سب کے بچے ان سے ہی دینی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ پھر ہم نے اسکول جانا شروع کیا تو وہاں بھی اپنے اساتذہ کو اسی طرح عزت دی۔ لیکن اب شاید سب کچھ بدل چکا ہے، اسی لیے اساتذہ کا عالمی دن منا کر یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ استاد کا کیا مقام ہے؟ اس سے زیادہ افسوس کا کیا مقام ہوگا کہ کسی معاشرے کو استاد کے مقام کو یاد دلایا جائے۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ تو ایک روحانی رشتہ ہوتا ہے جس کو یاد دلانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ اس میں قصور کس کا ہے؟ اس میں استاد، شاگرد، معاشرے اور ریاست سب کا قصور ہے، سب کی غلطیاں ہیں۔ اب ہمارا معاشرہ سمجھتا ہے کہ استاد ایک روحانی باپ نہیں بلکہ وہ ایک ایسا شخص ہے کہ جو بچوں کو کمانے کے طریقے سکھا کر، بتا کر ملازمت کے قابل بنائے گا، جبکہ شاگرد سمجھتا ہے کہ اس کے ماں باپ نے فیس دے دی ہے لہٰذا اب انھیں علم دینے والا ان کا ملازم ہے جس کا کام اسے نوکری کے قابل بنانا ہے اور بس۔ دوسری طرف دور جدید کے تقاضے کے تحت طالب علم کو صرف وہ علم فراہم کرنا ہے کہ جس سے وہ کسی فیکٹری کی مشین میں ایک پرزے کی مانند فٹ ہوکر پروڈکشن میں معاون ثابت ہوسکیں۔ چنانچہ اب ریاست بھی وہی نصاب عوام کو دینا چاہتی ہے کہ جو زیادہ سے زیادہ ملازمت کے مواقع فراہم کرے۔ گویا پورا معاشرہ یہی سمجھتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے لیے ہی تعلیم حاصل کرنی ہے۔ یوں جو اس دوڑ میں کامیاب نہیں ہو پاتے یا بہت پیچھے رہ جاتے ہیں وہ پھر اپنی ملازمت کے لیے ’تدریس‘ کے پیشے میں قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ یہ وہ معاشرتی سوچ ہے جو تعلیم اور استاد سب کو پستی میں لے جاتی ہے۔ کرس ہیجیز اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ امریکا میں اسکول کے ایک عام استاد کی تنخواہ چند ہزار ڈالر ہوتی ہے لیکن ایک ٹی وی پروگرام کا میزبان ایک سال میں 31 ملین ڈالر کماتا ہے۔ یہی کچھ ہمارے ہاں بھی ہے۔ ہمارا معاشرہ اب اس دور میں داخل ہو چکا ہے جہاں درزی کو فیشن ڈیزائنر، نائی کو ہیئر ڈریسر، میراثی اور بھانڈ کو شوبز کا اسٹار کہا جاتا ہے، اب ان تمام کے آگے تدریس کا پیشہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا جبکہ کل تک تدریس کا پیشہ سب سے باعزت سمجھا جاتا تھا۔ اس تمام تناظر میں ریاست کا کردار سب سے اہم رہا ہے، یعنی ریاست کی جانب سے جاری پالیسیوں اور فیصلوں میں سب سے کمتر کسی کو سمجھا گیا ہے تو وہ تعلیم اور اساتذہ ہیں۔ اس ملک میں تعلیم کا بجٹ ہی سب سے کم نہیں ہوتا بلکہ اساتذہ کی عزت کا بجٹ بھی سب سےکم رکھا جاتا ہے۔ انتخابات میں ڈیوٹی کے نام پر اساتذہ کو سخت بے عزت کیا جاتا ہے۔ اسی لیے اکثر اساتذہ اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے حقوق کے لیے اساتذہ جب کسی پریس کلب پر آکر احتجاج کریں تو مرد و خواتین اساتذہ کو پانی مار کر، ڈنڈے مار کر، سڑکوں پر گھیسٹ کر اس طرح بے عزت کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے طلبا کے سامنے بھی جاتے ہوئے شرماتے ہیں۔ اساتذہ کو جب ریاست کی طرف سے عزت کا بھی کوٹہ پورا نہ ملتا ہو تو بھلا انھیں اپنے حقوق کہاں سے ملیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ آج انھیں اپنی تنخواہوں میں اضافے کےلیے ہی نہیں، پروموشن اور پینشن جیسے بنیادی حق کے لیے بھی سڑکوں پر آکر تحریک چلانا پڑتی ہے۔ کہنے کو اس ملک میں اساتذہ کی کمی ایک ملین سے زائد ہے مگر جو اساتذہ حاضر سروس ہیں وہ بھی اس ملک کو پہلی فرصت میں چھوڑنے کےلیے تیار رہتے ہیں کہ کہیں سے کوئی اسکالر شپ ملے اور وہ بیرون ملک نکل جائیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قدر مایوسی کی فضا میں ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ اسا تذہ جو ’مائنڈ میکر‘‘ ہوتے ہیں جو نئی نسل کو ’ کنگ‘ بناتے ہیں جب وہ خود ہی مایوس ہوجائیں اور معاشرے میں ان کی قدر و عزت بھی نہ رہے تو وہ اپنا کردار کیسے ادا کر سکے گا؟ 1966 میں یونیسکو کے تحت اساتذہ کے حقوق، فرائض اور پیشہ ورانہ تربیت کے اصول متعین کیے گئے تھے۔ ریاستی سطح پر یہی اصول کار فرما ہونا چاہیے یعنی اساتذہ کو ان کے پورے حقوق فراہم کیے جائیں، اساتذہ اپنا پورا فرض ایمانداری سے بجا لائیں اور ریاستی تعاون سے اپنی پیشہ ورانہ تربیت بھی حالات کے تقاضوں کے تحت جاری رکھیں۔ یہاں افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ اساتذہ کو ان کے بنیادی حقوق بھی نہیں دیے جارہے ہیں اور سارا زور فرائض پر دیا جارہا ہے۔ منطقی اعتبار سے ایسا ممکن نہیں کہ حقوق نہ ملنے پر کوئی بھی فرد مسلسل اپنے فرائض تندہی سے انجام دیتا رہے، ایک وقت ایسا آتا ہے فرد اپنے فرائض انجام دینے انصاف نہیں کر پاتا۔ چنانچہ آج دیکھ لیں کہ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں بھی اساتذہ کی ایک ایسی تعداد موجود ہے جو اپنے مالی وسائل میں اضافے کےلیے دیگر غیر تدریسی کام، یا پارٹ ٹائم تدریس کرکے اپنی مالی مشکلات دو کر رہے ہیں جس سے تعلیم کا نظام بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ بلاشبہ ایک استاد کو ’سب سے پہلے تدریس‘ پر توجہ دینی چاہیے اور بڑی تعداد میں آج بھی اساتذہ ایسا ہی کر رہے ہیں مگر ایسے اساتذہ کی تعداد روز بہ روز گھٹ رہی ہے اور یہ منطقی بات ہے۔ یہ ایک سیدھی سادی سی بات ہے کہ جن کا کام ہی ملک و قوم کے لیے اچھے رہنما پیدا کرنا ہوتا ہے، جب ان لوگوں کو بنیادی حققوق بھی نہیں ملے گئے تو وہ بھی بطور استاد اپنے فرائض کب تک تندہی اور ایمانداری سے انجام دیتے رہیں گے؟ یاد رکھیں اس کا اثر ایک طالب علم پر نہیں، معاشرے اور نظام پر بھی پڑتا ہے۔ ایک استاد محض استاد نہیں ہوتا ہے، وہ معاشرے کا ڈاکٹر بھی ہوتا ہے جو معاشرے کو بیماریوں سے بچاتا ہے۔ پاکستانی ریاست اور حکومت کو بجائے یوم اساتذہ پر تہنتی پیغامات دینے کے اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل