Loading
قاہرہ میں غزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے اہم مذاکرات کا آغاز ہوگیا. عالمی خبر رساں ادارے کے مطاب ان مذاکرات میں حماس کے وفد کی قیادت خالد الحیا کر رہے ہے ہیں جنھیں اسرائیل نے دوحہ میں نشانہ بنانے کی ناکام کی کوشش کی تھی۔ یہ مذاکرات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت ہو رہے ہیں جس کا مقصد دو سال سے جاری جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانا ہے۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں صدیوں سے جاری اس جنگ کے خاتمے کے لیے جاری غزہ امن مذاکرات کی براہ راست خود نگرانی کروں گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ امن منصوبے پر "تیزی سے آگے بڑھیں" اور پہلے مرحلے پر عمل درآمد کو اسی ہفتے مکمل کرلیا جائے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں یہ واضح نہیں کیا پہلے مرحلے سے ان کی مراد کیا ہے؟ البتہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے مراد یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کی محدود واپسی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے اس پہلے مرحلے کے دوران فریقین غزہ میں موجود 20 زندہ یرغمالیوں سمیت 28 مرہ یرغمالیوں کی لاشوں کی حوالگی کے لیے بھی بات چیت کریں گے۔ علاوہ ازیں یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ غزہ سے اسرائیلی فوج کی محدود پیمانے پر واپسی پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ قبل ازیں حماس نے غزہ امن منصوبے پر مذاکرات کے لیے قاہرہ پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ وہ جنگ بندی، اسرائیلی فوج کے انخلا اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے مذاکرات کرنے آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق حماس یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل سے ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے جن میں وہ قیدی بھی شامل ہیں جنہیں عمر قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ تاہم اسرائیل نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، جبکہ نیتن یاہو کی اتحادی جماعتیں بھی معاہدے کے خلاف ہیں۔ خیال رہے کہ امریکی صدر اور اسرائیلی وزیر اعظم کے درمیان تعلقات میں تناؤ کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ نے نیتن یاہو کو فون پر ڈانٹتے ہوئے کہا کہ وہ ’’اتنے منفی‘‘ نہ ہوں۔ نیتن یاہو نے حماس کے جواب کو مسترد کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن ٹرمپ نے اسے مثبت قرار دیا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل