Wednesday, October 15, 2025
 

پاکستان میں معدنیات کی ترقی اور مالیاتی صنعت کا کردار

 



امریکی صدر کے دفتر اوول آفس میں صدر ٹرمپ کے ساتھ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی معدنیات کے نمونوں کے ساتھ سامنے آنے والی تصویر کے بعد بھارتی ذرائع ابلاغ میں جو صف ماتم بچھی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معدنیات کے شعبے کی ترقی سے پاکستان کو کس قدر فائدہ ہونے والا ہے۔ پاکستان نے ’دیر آید درست آید‘ کے مصداق کان کنی کے شعبے میں قدم رکھنے کا ارادہ کیا ہے۔ کیونکہ کورونا کے بعد دنیا میں معاشی رجحانات میں تبدیلی اور جدید معاشی نظام کو چلانے کےلیے دنیا کو معدنیات خصوصاً تانبے اور سونے سمیت نایاب قیمتی دھاتوں کی اشد ضرورت ہے۔ اور اس وقت دھاتوں کی مارکیٹ پر چین چھایا ہوا ہے۔ اسی نادر موقع کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت اور عسکری قیادت اعلیٰ ترین سطح پر پاکستان میں کان کنی کے شعبے کو ترقی دینے کےلیے کوشاں ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات میں پاکستان میں سے حاصل ہونے والی نایاب قیمتی دھاتوں کا تحفہ پیش کرنا اسی امر کی دلیل ہے کہ پاکستان کان کنی کے شعبے کی ترقی کےلیے کس قدر سنجیدہ ہے۔ اسی کے ساتھ یہ خبر بھی آئی کہ نایاب دھاتوں سے بھری مٹی کی ایک کھیپ امریکا روانہ کی گئی ہے۔ جس کی مالیت 50 کروڑ ڈالر ہے۔ اور اس کھیپ پر لیبارٹری تجربات کیے جائیں گے اور اس کا تعین ہوگا کہ مٹی میں کس قدر نایاب دھاتیں موجود ہیں اور ان کے ساتھ کس قسم کی کثافتیں اور انہیں کیسے صاف کیا جائے۔ دنیا کی ترقی یافتہ معیشتوں جیسا کہ امریکا، چین، سعودی عرب، روس، کینیڈا اور آسٹریلیا کی ترقی کی بنیاد بھی شعبہ کان کنی نے رکھی تھی۔ امریکا میں گولڈ رش آج بھی لوگوں کو راتوں رات امیر ہونے پر اُکساتا ہے۔ پاکستان کو بھی اللہ تعالیٰ نے بیش قیمت معدنیات سے نوازا ہے۔ مگر پاکستان کے پالیسی سازوں نے کان کنی کے شعبے پر توجہ نہ دی کیونکہ اس شعبے کےلیے انتہائی مشکل سنگلاخ اور دشوار گزار علاقوں میں جانے کے علاوہ کم ترین آبادی والے خطوں میں کام کرنا ہوتا ہے۔ اور وہاں کی ترقی پالیسی سازوں توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مگر اب حکومت کی جانب سے نہ صرف اس شعبے کی ترقی کےلیے ہمہ جہت کوششیں جاری ہیں تو دوسری طرف نجی شعبہ بھی کان کنی میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کررہا ہے۔ کان کنی کے شعبے میں تھر کے کوئلے کو نکالنے سے اس شعبے کی ملک میں ترقی ہوئی ہے۔ مگر اس کے باوجود کان کنی ملکی معیشت میں دو سے تین فیصد تک حصہ ڈالتی ہے۔ اندازے کے مطابق پاکستان میں چھ ہزار ارب ڈالر مالیت کا سونا، تانبا، کوئلا، لیتھیم، اور قیمتی نایاب دھاتوں کے ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان میں بلوچستان کا علاقہ چاغی، خیبرپخونخوا، اور گلگت بلتستان کے پہاڑی سلسلوں میں یہ اہم دھاتیں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ بلوچستان میں ریکوڈک دنیا کے سب سے بڑے غیر ترقی یافتہ تانبے اور سونے کے منصوبوں میں شمار ہوتا ہے، جس میں تقریباً 7.3 ملین ٹن تانبے اور 13 ملین اونس سونے کے ممکنہ ذخائر موجود ہیں۔ بلوچستان میں ایک اور بڑی کان دُدّر (Duddar) کان ہے جس میں تقریباً 50 ملین ٹن سیسہ-زنک (lead-zinc) کا خام مال موجود ہے۔ معدنیات کے شعبے پر ایک کانفرنس لوکٹون کی معدنیات اور توانائی سے متعلق ایک کانفرنس پر چائے کے وقفے میں نیچرل ریسورس این آر ایل کے چیف ایگزیکٹو شمس الدین شیخ سے تقریباً 15سال قبل انٹرویو کیا تھا۔ اور وہ فوری مجھے پہچان گئے ان سے بے تکلف گفتگو ہوئی۔ شمس الدین شیخ کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں اپنی معدنیات سے فائدہ اٹھانا ہے تو اس میں مقامی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوگا۔ مقامی کمپنیوں کو اس میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ معدنیات اور کان کنی کا شعبہ ایک مشکل اور طویل مدتی سرمایہ کاری کا حامل شعبہ ہے۔ اس میں ایک ڈالر لگائیں گے تو کم از دس سال بعد اس کا فائدہ حاصل ہوگا مگر یہ فائدہ اس قدر زیادہ ہوگا کہ انتظار کی کوفت کو ختم ہوجائے گی۔ شمس الدین شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جس طرح کان کنی اور معدنیات پر کام ہورہا ہے۔ اگر یہ اسی رفتار سے چلتا رہے تو حکومت کو سالانہ آٹھ ارب ڈالر تک اسی شعبے سے آمدنی ہوسکتی ہے۔ کان کنی کا شعبہ ایک مشکل اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل شعبہ ہے۔ اس میں ماہرین اور مشنیری کی بڑے پیمانے پر ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ یہ شعبہ طویل مدتی سرمایہ کاری کا حامل ہے۔ اس لیے اس شعبے کو ایک جدید اور مستحکم مالیاتی شعبے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جس میں بیمہ اور ورکنگ کیپٹل کی فراہمی شامل ہے۔ اسی کانفرنس میں فیصل ماکڈا سے بھی ملاقات ہوئی جوکہ فیڈیلٹی انشورنس بروکر کے اعلیٰ عہدیدار تھے۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں کان کنی کے شعبے کو آگے بڑھانا ہے تو اس کےلیے سرمایہ کاروں کو وہ اعتماد دینا ہوگا جس میں وہ طویل مدتی سرمایہ کاری کرسکیں۔ کان کنی کا شعبہ ایک بہت ہی متحرک اور ہائی رسک والا شعبہ ہے۔ جس میں قدرتی آفات، حادثات اور عالمی منڈی میں ہونے والے اتار چڑھاؤ اور دیگر رسک شامل ہیں۔ اس شعبے میں سرمایہ کار اس وقت ہی آتے ہیں جس ملک میں ان رسک کو کم ترین سطح پر رکھنے کےلیے بیمہ کی خدمات دستیاب ہوں۔ پاکستان کو اپنے کثیر ارب ڈالر کی کانوں اور معدنیات کی صنعت کو فروغ دینے کےلیے ایک مستحکم بیمہ نظام کی بھی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان میں کوئی بھی بیمہ کمپنی ایسی نہیں جو کہ ان پروجیکٹس کو رسک کا تحفظ فراہم کرسکے۔ مگر مقامی بیمہ کار کمپنیوں کو اس حوالے سے اپنی صلاحیت، افرادی قوت، اور مطلوبہ سرمایہ کاری کا بندوبست کرنا ہوگا۔ پاکستان کے قیام سے اب تک معیشت اور خصوصاً برآمدات کا انحصار ٹیکسٹائل کی صنعت پر تھا۔ اب کان کنی کے شعبے کے ذریعے پاکستان کو ایک نئے شعبے میں ترقی دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس سے پاکستان کے دور دراز علاقوں میں ترقی کی نئی راہیں کھیلں گی۔ کان کنی کے شعبے کی ترقی کےلیے ملکی مالیاتی صنعت خصوصاً بیمہ کاری کو بھی آگے آنا ہوگا اور اپنی صلاحیت کو بڑھانا ہوگا۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل