Tuesday, October 28, 2025
 

آئی بی ایم طلبا کے احتجاج پر بےدخل طالبہ بحال، یونیورسٹی تاحال بند

 



آئی بی ایم میں ایک طالبہ کا داخلہ منسوخ کرنے پر طلبا کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا جس کے بعد طالبہ بحال کردی گئیں۔ تفصیلات کے مطابق احتجاج کیوجہ سے آئی بی ایم آج بھی دوسرے روز بند تھی تاہم ترجمان کا کہنا ہے کہ بدھ سے کیمپس میں کلاسز شروع ہوجائیں گی۔ کاروبار کی تعلیم میں اپنا مقام رکھنے والی پرائیویٹ سیکٹر کی معروف یونیورسٹی " انسٹی ٹیوٹ آف بزنس منیجمنٹ" (آئی بی ایم) آج منگل کو دوسرے روز بھی بند ہے۔ فزیکل کلاسز معطل ہیں اور یونیورسٹی کے دعوے کے مطابق طلبہ آن لائن کلاسز لے رہے ہیں۔ یونیورسٹی کی یہ بندش وہاں کے نوجوان طلبا کے احتجاج  کے سبب سامنے آئی ہے جن کی تعداد محتاط انداز کے مطابق 1 ہزار سے زیادہ تھی۔ یہ احتجاج ایک ساتھی طالبہ اور بزنس ایڈمنسٹریشن کی اسٹوڈنٹ کے حق میں تھا جسے پیر کو یونیورسٹی سے بے دخل کیا گیا تھا اور داخلہ منسوخ کردیا گیا تھا۔ احتجاج کی اس لہر اور سماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فارمز پر انتظامیہ کے اس عمل کے خلاف جاری مہم نے آئی بی ایم کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا اور جس طالبہ کا داخلہ یونیورسٹی سے منسوخ کردیا گیا تھا اس کا داخلہ نا صرف بحال کردیا گیا ہے بلکہ اسے فوری طور پر کلاسز لینے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ اس بات کی تصدیق آئی بی ایم کے ترجمان نے "ایکسپریس" سے بات چیت میں کی ہے۔یونیورسٹی کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "آئی بی ایم فزیکل کلاسز کے لیے بدھ سے کھول دیا جائے گا" واضح رہے کہ آئی بی ایم نے متعلقہ طالبہ کو یونیورسٹی سے فارغ کرنے سے متعلق اپنے متنازعہ فیصلہ کو چند ہی روز میں تین بار تبدیل کیا ہے۔ پہلے فیصلے کے تحت اس طالبہ کو انتظامیہ سے نامناسب رویہ اختیار کرنے کے سبب یونیورسٹی سے نکال دیا گیا کچھ ہی وقت نہیں گزرا تھا ایک نئے فیصلے کے تحت یونیورسٹی سے بے دخلی یا داخلہ منسوخی کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے اسے ایک سیمسٹر کے لیے معطل کیا  اور طالبہ جنوری/فروری سے شروع ہونے والے اسپرنگ سیمسٹر سے کلاسز لے سکتی تھی۔ اس دوران طلبہ کا احتجاج جاری تھا کہ پیر کو ایک نیا اور تیسرا فیصلہ سامنے آیا جس میں اس طالبہ کے حوالے سے پہلے کیے گئے دونوں فیصلوں کے برعکس فوری طور پر ہی کلاسز لینے کی اجازت دے دی گئی۔ بتایا جارہا ہے کہ معاملہ کچھ یوں تھا کہ یہ طالبہ یونیورسٹی میں قائم ٹرانسپورٹ کے دفتر میں کسی کام سے گئی تھی جہاں مبینہ طور پر ٹرانسپورٹ سے منسلک شخص کی جانب سے اس کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیا گیا جس کی شکایت طالبہ نے یونیورسٹی کے ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ میں کی۔ اس اثنا میں طالبات کے گھر کے افراد بھی وہاں پہنچے اور ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کے رویہ کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تاہم یونیورسٹی نے طالبہ ہی کے خلاف کارروائی کی اور اس کا داخلہ منسوخ کردیا۔ یہ معاملہ سوشل میڈیا پر طشت ازبام ہوا اور طلبہ نے انتظامی رویہ کے خلاف احتجاج کی کال دے دی جس کے تدارک کے لیے یونیورسٹی کو فزیکل کلاسز کے لیے بند کردیا گیا تاہم پھر بھی طلبہ یونیورسٹی میں انتظامی عمارت کے باہر جمع ہوئے اور " we want justice " اور " she deserves justice not punishment " کے نعرے لگائے انتظامیہ کے خلاف تقاریر ہوئی۔ انتظامیہ دبائو میں آئی اور طالبہ کے داخلے کو مکمل ہی بحال کردیا گیا۔ دوسری جانب انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہم نے ٹرانسپورٹ کے شعبے سے اس ملازم کو فارغ کردیا ہے جس نے طالبہ کے ساتھ ناروا رویہ اختیار کیا تھا۔ دراصل وہ ملازم یونیورسٹی کا نہیں بلکہ تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ کے تحت یونیورسٹی میں کام کررہا تھا۔ ایکسپریس کے اس سوال پر کہ یونیورسٹی اس سلسلے میں تینوں میں سے اپنے کس اقدام کی وضاحت کرے گی، ترجمان کہنا تھا کہ طالبہ اور اس کے گھر سے آنے والے افراد نے ہماری دو خواتین فیکلٹی کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیا تھا جس پر پہلا فیصلہ کیا یونیورسٹی کے صدر کے ساتھ سماعت میں اس کی بے دخلی کے فیصلے کو واپس لیا گیا جبکہ طالبہ کی جانب سے درخواست پر اسے فوری کلاسز لینے کی اجازت دی ہے۔ ترجمان کے مطابق یونیورسٹی میں اینٹی ہراسمنٹ پالیسی وجود رکھتی ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل