Loading
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جعلی بنک اکاونٹس کیس میں نجی بنک کے 12 ارب روپے کے منجمند کردہ شیئرز ڈی فریز کرنے کا احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کرنے کی قومی احتساب بیورو کی استدعا مسترد کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس خادم حسین سومرو نے نجی بنک کے شیئرز ڈی فریز کرنے کے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف نیب اپیل پر سماعت کی۔
عدالت نے احتساب عدالت کا فیصلہ فوری معطل کرنے کی نیب کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ نیب کیس سے متعلقہ دستاویزات متفرق درخواست کے ذریعے جمع کرائے۔
چیف جسٹس نے نیب کو ہدایت کی کہ متعلقہ دستاویزات جمع کروا دیں پھر کیس مقرر کر دینگے، ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ احتساب عدالت نے شیئرز ڈی فریز کر کے اپنے اختیار سے تجاوز کیا۔
چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے ریمارکس دیے کہ احتساب عدالت نے وجوہات دی ہیں کہ کیوں یہ آرڈر کیا گیا، نیب نے کہا کہ اگر 12 ارب روپیہ نکل جائے گا تو پھر کیس میں کیا بچے گا؟
چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے کہا کہ آپ اس شخص کی رقم فریز کر کے انجوائے کر رہے ہیں، جس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب کا کہنا تھا کہ یہ نجی بنک کے شیئرز ہیں، ہم انجوائے نہیں کر رہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب نے شیئرز فریز کر کے پچھلے چھ ماہ سے اُس بندے کو متاثر کیا۔
نیب پراسکیوٹر نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے نیب کو تحقیقات کا حکم دیا، عملدرآمد بنچ بھی بنایا۔ جس پر چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے استفسار کیا کہ عملدرآمد بنچ کیسے اور کس قانون کے تحت بنا دیا؟ جس پر نیب پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184/3 کے تحت آرڈر جاری کیا۔
چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ ایسے آرڈر تو نہیں کر سکتی کہ وہ کوئی بادشاہ سلامت ہے۔ نیب پراسکیوٹر نے جواب دیا کہ ہمارے قانون کے مطابق سپریم کورٹ بادشاہ سلامت ہی ہے۔
چیف جسٹس نے پھر ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بادشاہ ہی ہے، ہائیکورٹ مکمل انصاف نہیں کر سکتی، ہائیکورٹ نے قانون کے مطابق آرڈر کرنا ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے، سپریم کورٹ کو نہیں روکا جا سکتا وہ مکمل انصاف کر سکتی ہے۔
عدالت نے متفرق درخواست کے زریعے کیس سے متعلق دستاویزات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل