Thursday, October 30, 2025
 

ہم سچ سے کیوں گھبراتے ہیں؟

 



جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے حیران و پریشان ہوں کہ کیا کیا جائےـ جھوٹ بول کر ڈٹ جانا چاہیے تاکہ صاحب کردار لگوں یا جھوٹ سے نفرت کروں اور سچ بولنے کی قیمت چکاتا رہوں؟ کبھی کبھی یہ بھی سن کر حیرانی ہوتی ہے کہ چھوٹا موٹا جھوٹ بول کر بڑے تصادم کو ٹال دینا بھی ثواب ہے؟ جب کہ قرآن پاک میں جھوٹ بولنے والے پر لعنت بھیجی گئی ہے۔ سچ بولنے کا عمل انسانیت کی ایک اہم خصوصیت ہے مگر کراچی کی رونقوں سے لے کر ہزارہ کی وادیوں تک، پاکستان کی مختلف ثقافتوں میں اس سچائی کو ادا کرنے میں جھجک اور ہچکچاہٹ پائی جاتی ہے۔ ہم سچ بولنے سے کیوں گھبراتے ہیں؟ یہ سوال ایک گہری بصیرت کا متقاضی ہے۔ ہماری ثقافت میں خاندانی روایات، معاشرتی دباؤ اور عزت و وقار کا فلسفہ سچ بولنے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں بن جاتی ہیں۔ بچپن سے ہی ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ ’’'کبھی کسی کا دل نہ دکھاؤ'‘‘۔ یہ تعلیمات بعض اوقات سچائی کی قیمت پر ہی دی جاتی ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم سچ بولیں گے تو کہیں کسی کی عزت کو نقصان نہ پہنچ جائے یا کسی کے احساسات مجروح نہ ہوجائیں، یا کوئی ہمارے اس فعل سے ناراض ہی نہ ہوجائے۔ ایک اور بڑی وجہ توقعات ہیں۔ معاشرے کی طرف سے بنائے گئے خیالی تصورات اور معیارات ہمیں سچائی سے دور کردیتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ اگر ہم سچ بولیں گے تو لوگ ہمیں برا سمجھیں گے یا ہماری عزت میں کمی آئے گی۔ ہم دوسروں کے ساتھ جڑے رہنے کے لیے جھوٹ بولنے کو بہتر سمجھتے ہیں، کیونکہ یہ سچائی بعض اوقات ہمیں اکیلا کرسکتی ہے۔ مگر کیا ہمیں یہ سوچنا نہیں چاہیے کہ سچ بولنے میں کتنا بڑا سکون ہے؟ جب ہم سچ بولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے بوجھ ہلکا ہو رہا ہے۔ حقیقی رشتے سچائی پر ہی قائم ہوتے ہیں۔ ان کا بنیادی عنصر اعتماد اور امانت داری ہے۔ جب ہم سچ بولنے کی جرأت کرتے ہیں تو ان رشتوں کی جڑیں مزید مضبوط ہوتی ہیں، اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ گہرے اور حقیقی تعلقات قائم کرتے ہیں۔ سچائی میں ایک جھلک ہوتی ہے جو ہمیں آزاد کرتی ہے، ہمیں اپنی کمزوریوں کو قبول کرنے کا موقع دیتی ہے۔ اس آزادی میں ایک خاص خوشی ہے، جو جھوٹ کی قید میں نہیں ہوتی۔ پاکستانی معاشرہ اکثر ایک ہیروئین کی مانند ہوتا ہے، جہاں عزت، شرافت اور خاندانی نام کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی باتوں کا وزن کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سچ بولنے میں ہمیں ایک خوف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں ہمیں دیوانہ، بے وقوف یا بے باک نہ سمجھ لیا جائے۔ یہ کیسا عجیب تضاد ہے! ہم ایک طرف سچائی کی تلاش میں ہیں مگر دوسری طرف اس کی قیمت چکانے سے ڈرتے ہیں۔ سچ بولنے کی گھبراہٹ کو دور کرنے کےلیے ہمیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر بار سچ بولنے سے حالات کا بگاڑ نہیں ہوتا بلکہ اکثر اسے بہتر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کی حمایت کرنی چاہیے، جو سچائی کی بات کرے تاکہ وہ خود کو محفوظ سمجھ سکے۔ ایک مثبت تبدیلی کا آغاز کرنے کےلیے ہمیں اپنے دلوں میں یہ عزم کرنا ہوگا کہ ہم سچ کے حامی بنیں گے، چاہے اس کے نتیجے میں کچھ ناکامی، افسردگی یا سماجی دباؤ ہی کیوں نہ آئے۔ سچ کی طاقت ہی انسانیت کو آبیاری کرتی ہے اور ہمیں خود کی پہچان دلانے میں مدد کرتی ہے۔ کیوں نہ ہم ایک نئے عزم کے ساتھ معاشرے میں سچائی کے چراغ کو جلائیں اور دلوں میں روشنی پھیلائیں؟ سچ بولنے کا راستہ مشکل ضرور ہے مگر یہ ہماری روایات اور ثقافت کا حقیقی حسن ہے۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ سچائی کبھی بے آواز نہیں ہوتی، یہ ہمیشہ جیتتی ہے اور وہی ہماری شناخت ہے۔ یقین کامل ہے کہ جھوٹ سے بچنا واقعی زندگی کو آسان بنا سکتا ہے۔ جب ہم سچے ہوتے ہیں تو یہ نہ صرف ہمارے تعلقات کو مضبوط کرتا ہے بلکہ ہمیں ذاتی طور پر بھی مطمئن رکھتا ہے۔ جھوٹ بولنے کی کوشش میں کئی بار اضافی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں، جیسے جھوٹ کو چھپانا یا اس کی کنفیوژن کا سامنا کرنا۔ سچائی کے ان گنت فوائد ہیں۔ آپ کا اعتماد تعمیر پاتا ہے اور آپ کے دوستوں، خاندان اور ساتھیوں کے درمیان اعتماد بڑھتا ہے۔ ذاتی سکون کی وافر مقدار حاصل ہوتی ہے اور سچ بولنے سے ذہنی سکون ملتا ہے اور آپ خود کو زیادہ آزاد محسوس کرتے ہیں۔ معاشرتی رشتے پنپتے ہیں، آپ کے تعلقات میں ایمانداری کی بنیاد پر پختگی آتی ہے۔ مشکلات میں کمی واقع ہوتی ہے، جب آپ سچے ہوتے ہیں تو جھوٹ کے نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جس سے زندگی میں پیچیدگیاں کم ہوجاتی ہیں۔ آپ کو خود اعتمادی کی قوت ملتی ہے، سچائی کے ساتھ جینے سے آپ خود اعتماد ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم سب اس گھٹن زدہ معاشرے میں زندگی کو آسان بنانے کےلیے اپنے روزمرہ کے فیصلوں اور بات چیت میں ایمانداری کو اپنا معمول بنالیں۔ سچ بولیں مگر اپنے حوالے سے بھی سچ بولنا کبھی نہ چھوڑیں۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل