Thursday, December 18, 2025
 

طالبان کا بڑا دعویٰ مسترد، اقوام متحدہ نے افغان سرزمین پر دہشت گردوں کی موجودگی بے نقاب کر دی

 



اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک تازہ رپورٹ میں طالبان کے اس دعوے کو مسترد کر دیا گیا ہے کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو رہی۔ رپورٹ میں طالبان کے مؤقف کو ’’ناقابلِ اعتبار‘‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ ہمسایہ ممالک تیزی سے افغانستان کو علاقائی عدم استحکام کا سبب سمجھنے لگے ہیں۔ اقوام متحدہ کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی 16ویں رپورٹ کے مطابق طالبان مسلسل اس بات سے انکار کرتے رہے ہیں کہ افغانستان میں کسی دہشت گرد گروہ کی موجودگی ہے یا وہاں سے سرحد پار حملے کیے جا رہے ہیں، تاہم یہ دعویٰ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داعش خراسان، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ، ترکستان اسلامک پارٹی اور دیگر شدت پسند گروہ افغانستان میں موجود ہیں اور بعض گروہوں نے افغان سرزمین کو بیرونی حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق القاعدہ طالبان کے ساتھ قریبی روابط رکھتی ہے اور کئی افغان صوبوں میں اس کی موجودگی برقرار ہے، جہاں اسے تربیت اور تنظیم نو کے مواقع میسر ہیں۔ دوسری جانب داعش خراسان کو طالبان کا اہم مخالف قرار دیا گیا ہے، جس کے خلاف کارروائیوں کے باوجود گروہ حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ رپورٹ میں ٹی ٹی پی کو علاقائی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ گروہ افغان محفوظ ٹھکانوں سے پاکستان میں حملے کر رہا ہے اور 2025 کے دوران پاکستان میں اس کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق رواں سال اب تک 600 سے زائد حملے کیے جا چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق طالبان کے اندر بعض عناصر ٹی ٹی پی کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں اور تاریخی روابط کے باعث طالبان کی جانب سے اس گروہ کے خلاف مؤثر کارروائی کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں نے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں سرحدی جھڑپیں، جانی نقصان اور تجارت میں خلل پیدا ہوا۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں شدت پسند گروہوں کی مسلسل موجودگی نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل