Wednesday, October 30, 2024
 

کچھ تخلصات کے خلاصے

 



ہم نے جب اپنا تخلص برق اختیار کیا تو ہمیں بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ کوہاٹ کے ایک صاحب ’’آغا سید محمد شاہ‘‘ بھی یہی تخلص کرتے ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ ہمارے نہایت ہی’’پسندیدہ‘‘ شاعر لیکن ناپسندیدہ شخصیت احمد فراز کے والد ہیں۔ ہم نے اس وقت کے مشہور، عالم، اسکالر اور محقق ڈاکٹر غلام جیلانی برق سے متاثر ہوکر یہ تخلص اپنایا تھا۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق اس وقت کیمبل پور ، آج کے اٹک کے رہنے والے تھے۔ان کی کتابیں، دو اسلام، دو قرآن، افکار نو اور دیگر کئی کتابیں ان دنوں بڑی مشہور تھیں۔ قرآن و حدیث یعنی دینی علوم کے ساتھ ساتھ وہ دیگر مروجہ علوم طبیعات، سائنس، فلسفہ اور تاریخ پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے چنانچہ ان کی تحریریں پڑھ کر اذہان روشن ہو جایا کرتے تھے اور اسی وجہ سے تاریکیوں کے مبلغوں نے ان پر ’’ٹھپہ‘‘ بھی لگایا ہوا تھا، جسے لگانے کے لیے علم کے بجائے جہالت میں ڈگری یافتہ ہونا ضروری ہوتا ہے اور اگر ان کے لگائے ہوئے ٹھپوں کو دیکھا جائے تو ٹھپہ لگانے والے کے سوا پورے عالم اسلام میں ایک بھی مسلمان باقی نہ رہے۔ کئی بار ہم نے ارادہ کیا ہے کہ ابتدا بھی کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے کام کو تھوڑا سا اور آگے بڑھایا جائے اور دو اسلام، دو قرآن کے ساتھ ساتھ دو پاکستان کے عنوان سے بھی کتاب لکھی جائے لیکن غم روزگار ذرا سانس لینے دے تب۔

وہ آکے خواب میں تسکین اضطراب تو دے

مگر مجھے خلش دل مجال خواب تو دے

خیر یہ بات دوسری طرف چلی گئی، ہم اپنے تخلص’’برق‘‘ پر کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ ہم تو ان دنوں ’’تازہ واردان‘‘ میدان ہوا ہوس تھے، اس لیے پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ تخلص اور کس کس کے استعمال میں ہے:

دل برباد سے کس کس نے مرادیں پائیں

کام کس کس کے مرا خرمن آباد آیا

آغا سید محمد شاہ برق سے کوہاٹ میں ایوب صابر کی لائبریری میں ملاقات ہوئی تو ہم تخلص ہونے کا رشتہ قائم ہوا ۔ اس ملاقات کی ابتدا یوں ہوئی کہ آغا صاحب نے تخلص پر اپنا حق زیادہ جتاتے ہوئے کہا کہ آپ میرا تخلص استعمال کرنابند کردیں۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ کافی عرصہ استعمال کرچکے ہیں، اب ہمیں موقع دیں۔آغا صاحب بڑے نرم خو، حلیم الطبع اور مرنجاں مرنج آدمی تھے بولے چلو

سپردم بتو مائہ کہ خویش

تو دانی حساب کم و بیش

ویسے بھی آغا صاحب عمر کے اس پیٹے میں تھے کہ شاعری تقریباً چھوڑ چکے تھے جب کہ ان دنوں احمد فراز کا طوطی بولنے لگا تھا لیکن اس کے ساتھ ہماری کبھی نہیں بنی کیونکہ ہمارے اور ان کے نظریات میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ فراز کا نظریہ ادب یہ تھا کہ ضروری نہیں ہے کہ شاعر کا کلام اور اس کا عمل ایک جیسے ہوں، اگر کوئی شاعر اچھے شعر کہہ رہا ہے تو ضروری نہیں کہ اس کی عادات بھی اچھے ہوں۔ فراز کی اہلیہ کا بھائی ایوب صحرائی ہندکو زبان کا اچھا شاعر تھا اور ہمارا دوست تھا۔ ایوب صحرائی چونکہ دوست تھا لہٰذا ہمیں بھی معلوم ہے، ذرا ذرا ۔

بہرحال اصل بات یہ ہے کہ ’’ہم تخلصات‘‘ کے بارے میں کچھ اپنی تحقیق بتانا چاہتے ہیں، اصل نام تو والدین اپنی ترجیحات اور خواہشات کے مطابق رکھ دیتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن تخلص انسان خود اپنی نفسیات کے مطابق رکھتا ہے جو اکثر اس کی شخصیت سے ’’اُلٹ‘‘ ہوتا ہے یعنی وہ جو اس میں نہیں ہوتا وہ ’’تخلص‘‘ میں حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارا تخلص لے لیجیے۔ سوائے بار بار جلنے بجھنے اور نہ ہونے کے ، ہمارے اندر بجلی کی کوئی صفت نہیں ہے۔ ہم اتنی آہستگی سے چلتے ہیں کہ کچھوے اور چیونٹیاں بھی ہارن دے کر پاس ہوتی ہیں، جن جن لوگوں کے تخلصات صابر ہوتے ہیں، وہ بے صبری کے چمپئن ہوتے ہیں۔ غالب عمر بھر مغلوب رہے اور ہر کسی سے۔ بہادر شاہ نے اپنا تخلص ظفر یعنی فاتح رکھا تھا۔ فراز ہمیشہ نشیب میں رہے، ہمارے دوست قلندر مومند زندگی بھر شہر سے باہر نہیں گئے،صحرائی نے کبھی صحرا کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا۔ قتیل بیچارا نہ قتیل تھا نہ شفائی، مومن خان مومن نے تو خوداعتراف کیا ہے۔ میر تقی میر بھی ہمیشہ فقیر رہے، قمر جلالوی گرہن زدہ ہی رہے، جگر کا جگر تھا ہی نہیں۔ تاجور کے سر پر ٹوپی تک نہ تھی اور جوش کبھی ہوش میں آئے ہی نہیں۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل