Sunday, May 05, 2024

سائفر کیس؛ مقدمہ درج ہوا تو سائفر دیگر لوگوں نے بھی واپس نہیں کیا تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ

 



 اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں سوال اٹھایا ہے کہ جب مقدمہ درج ہوا تو دیگر لوگوں نے بھی سائفر کی کاپیاں واپس نہیں کی تھیں تو کیا ان کا یہ اقدام ٹھیک تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کے اسپیشل پراسیکیوٹر سے سوال کیا اس حد تک تو آپ تسلیم کریں گے کہ سائفر کاپی دانستہ واپس نہ کرنے اور غفلت برتتے ہوئے گم کرنے کے الزامات بیک وقت نہیں لگائے جا سکتے تھے۔

ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا بانی پی ٹی آئی کے پاس جب سائفر آیا تو انہوں نے دانستہ طور پر اپنے پاس رکھ لیا، پھر کوتاہی برتتے ہوئے سائفر کاپی واپس نہیں کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوال اٹھایا ہے کہ سائفر کیس درج ہوا تو کئی دیگر افراد نے بھی سائفر کاپیاں واپس نہیں کی تھیں پھر صرف بانی پی ٹی آئی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطلب یہ ہے کہ باقی لوگوں کا سائفر اپنے پاس رکھنا ٹھیک تھا۔

پراسیکیوٹر نے جواب دیا باقی شخصیات نے سائفر کاپیاں واپس کر دیں، بانی پی ٹی آئی سے متعلق ہمیں معلوم تھا کہ انہوں نے سائفر کاپی گم کر دی ہے، بانی پی ٹی آئی نے سائفر کاپی دانستہ طور پر اپنے پاس رکھ لی اورکوتاہی برتتے ہوئے واپس نہیں کی۔ عدالت نے دیکھنا ہے کہ سائفر کی کاپی ملزمان کے پاس پہنچی تھی یا نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا آپ کہتے ہیں بانی پی ٹی آئی نے یہ پبلک کر دیا، وہ کر دیا، آخر کیا پبلک کیا ہے، سائفر تو عدالتی ریکارڈ پر ہی نہیں ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ سائفر دستاویز موصول کرنے والا کہاں ہے، اسے لازمی طور پر معلوم ہونا چاہیے تھا کہ سائفر پاس رکھ لینے کے کیا نتائج ہیں، ڈاکیومنٹ تو وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری نے وزیراعظم کو دینا تھا۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا میں اس متعلق بعد میں عدالت کی معاونت کروں گا، ان کا کہنا تھا سائفر ایک قابلِ احتساب کلاسیفائیڈ دستاویز ہے، پاکستانی سفیر اسد مجید نے وزرات خارجہ کو سائفر بھجوایا، جس کی ماسٹر کاپی رکھنے والے گواہ نے بتایا کہ یہ ایک کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سائفر ٹیلی گرام موصول کرنے والے افسر نے بتایا کہ انہوں نے ڈاؤن لوڈ کرکے اس پر نمبر لگایا تھا، سائفر کے مصنف نے بیان دیا کہ ایک ملاقات میں بات چیت کو سائفر کی صورت میں لکھا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے آپ کہہ رہے ہیں کہ ایک گواہ یہ کہہ رہا ہے، دوسرا گواہ وہ کہہ رہا ہے، تب مان لیں لیکن ڈاکومنٹ تو ریکارڈ پر ہی نہیں، یہ تو وہ ہی ہو گیا قتل ہو گیا ڈیڈ باڈی نہیں دکھانی لیکن فلاں یہ کہہ رہا ہے فلاں وہ کہہ رہا ہے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ سائفر ایک کرپٹو فارم میں تھا اور دوسرا اس پر خفیہ دستاویز کا نمبر بھی لگا ہوا تھا، سائفر کی موومنٹ سائفر گائیڈ لائن کے مطابق ایک حفاظتی کنٹینر میں ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کنٹینر سے کیا مراد ہے، پراسیکیوٹر نے بتایا ڈاکومنٹ ایک کنٹینر میں بھیجا جاتا جو چمڑے سے بنا ایک تھیلہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا سائفر کاپی اس لیے بھیجی جاتی ہے کہ وہ اس ڈاکومنٹ کو پڑھ کر ایکشن لینے سے متعلق آگاہ کرے، جن کو  سائفر کاپیاں واپس کرنے کے لیے کہا گیا تو ان کی جانب  سے واپس کردی گئیں۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے سائفر کاپی واپس نہیں آئی، ہمیں معلوم تھا کہ سائفر کاپی گم کر دی گئی ہے۔

ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ وہ تین سے چار سماعتوں میں دلائل مکمل کر لیں گے، جس کے بعد سماعت 30 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل