Loading
اپنے کام میں اچھا ہونے کے جہاں فوائد بہت ہیں وہاں خاصے نقصانات بھی ہوتے ہیں، اگر کسی ادارے میں کوئی ملازم کام میں ماہر ہو تو اسے کئی ذمہ داریاں بیک وقت سونپ دی جاتی ہیں، یوں وہ بْری طرح پھنس جاتا ہے، کرکٹ میں بھی ایسا ہی ہے، ہمیں ٹیسٹ کرکٹ کا کوئی اچھا کھلاڑی ملے تو اسے ون ڈے اور ٹی20 بھی کھلا دیتے ہیں، ایسا ہی دیگر طرز میں بھی ہوتا ہے لیکن جس کا کام اسی کو ساجھے کے مصداق اکثر ایسے تجربات ناکام ہی ثابت ہوتے ہیں۔ آج کل عاقب جاوید کا ستارہ عروج پر ہے، چیئرمین محسن نقوی انھیں بہت پسند کرتے ہیں، وہ عاقب کو لائے تو نیشنل کرکٹ اکیڈمی کیلیے تھے لیکن ان کی باتوں اور پھر کام سے متاثر ہو کر کئی مختلف ذمہ داریاں سونپ دیں، سابق پیسر اب تک اس امتحان میں خاصی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں، انھیں سلیکٹر بنایا تو اسپن پچز تیار کرائیں اور بھولی بسری داستان بنے اسپنرز کو واپس لے آئے، اس سے پاکستان نے انگلینڈ کو ٹیسٹ سیریز میں ہرا کر سب کو حیران کردیا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن عاقب نے ہاری ہوئی ٹیم سے بابراعظم، شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کو ایک ساتھ باہر بٹھا دیا، اس کے باوجود ٹیم جیت گئی، یہاں بھی ان کی واہ واہ ہوئی، استعمال شدہ پچ پر مسلسل دوسرا ٹیسٹ کرانے کا کریڈٹ بھی انہی کو ملا، لو پروفائل علیم ڈار پیچھے رہ گئے حالانکہ پی سی بی کی ایک بڑی شخصیت نے مجھے خود بتایا کہ یہ مشورہ علیم نے دیا تھا۔ آسٹریلیا کیخلاف سیریز سے قبل جب وائٹ بال کوچ گیری کرسٹن کے مطالبات اور دھمکیوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو پی سی بی نے انھیں جانے دیا، ایسے میں عاقب جاوید کا نام سامنے آیا کہ وہ کوچ بھی بن جائیں گے لیکن انھوں نے قریبی حلقوں کے سامنے واضح کردیا کہ وہ کبھی دہری ذمہ داری قبول نہیں کریں گے، ٹیسٹ کوچ جیسن گلیسپی کو ہنگامی طور پر وائٹ بال کرکٹ میں بھی فرائض انجام دینے پر قائل کیا گیا، اب زمبابوے کیخلاف سیریز کیلیے عاقب جاوید کو کوچ کا عہدہ سونپ دیا گیا اور وہ فورا مان بھی گئے، البتہ یہ ان کیلیے مشکل سفر ثابت ہوگا۔ یہ لاہور قلندرز نہیں پاکستان کی ٹیم ہے، قلندرز نے تو پی ایس ایل میں 7،8 سال ہارنے کے باوجود انھیں برقرار رکھا یہاں خدانخواستہ 8 میچز میں بھی نتائج اچھے نہ آئے تو سب پیچھے پڑ جائیں گے، ماضی میں جب الیکٹرونک و سوشل میڈیا نہیں تھا تو کھلاڑیوں کو آسانی تھی، وہ کچھ بھی کہہ کر غلط رپورٹ ہونے کا بہانہ بنا لیتے، اب جو بھی کہیں وہ زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتا، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بار بار اسے دکھایا جاتا ہے، ماضی میں جب مصباح الحق نے سلیکٹر و کوچ کی ایک ساتھ ذمہ داری سنبھالی تو ان کے سب سے بڑے ناقد عاقب ہی تھے، البتہ اب وہ خود اسی راہ پر چل پڑے، اس کا جواز یہ دیا جاتا ہے کہ مصباح کو کوچنگ کا کوئی تجربہ نہ تھا مگر عاقب 20 سال سے کوچنگ کر رہے ہیں، حالانکہ اب ان کا قلندرز سے تعلق نہیں رہا لیکن پھر بھی ہمیشہ اس فرنچائز کے پلیئرز کو سلیکٹ کرنے کا طعنہ ملتے رہے گا۔ حالانکہ لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ شاہین آفریدی یا حارث رئوف جیسے کھلاڑی تو آٹومیٹک چوائس ہوتے ہیں، سلیکٹر کا کوچ ہونا مسائل کا باعث بنتا ہے، کھلاڑی اپنی انجری یا کوئی اور مسئلہ کوچ سے ڈسکس کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ سلیکٹر بھی ہو تو محتاط ہو جاتے ہیں، عاقب نے بابر اعظم کے بارے میں کہا تھا کہ پی ایس ایل میں ہم تو انھیں آئوٹ ہی نہیں کرتے اشارہ سست بیٹنگ کی طرف تھا، بابر کی ایگو بہت بڑی ہے، وہ یہ بات دل میں لیے بیٹھے ہوں گے، جب کسی سیریز میں دونوں ساتھ ہوئے تو تلخ فضا سی موجود ہوگی، سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جب عاقب لاہور قلندرز کے کوچ تھے تب محمد رضوان کو ٹیم سے باہر کیا تھا، اب خود پاکستان ٹیم کا کپتان بنوا دیا، اسی طرح شاہد اسلم کو بھی عاقب کے دور میں فرنچائز نے فارغ کیا، اب وہ انھیں بیٹنگ کوچ بنا کر قومی اسکواڈ میں لے آئے، اس سے لگتا ہے کہ شاید وہ بدل گئے یا سوچ میں بڑی تبدیلی آئی ہے،ان باتوں سے ہٹ کر اگر دیکھیں تو عاقب جاوید بیحد محنتی اور ایماندار انسان ہیں، وہ اپنے کام کے ساتھ مخلص ہیں،انگلینڈ سے ٹیسٹ اور آسٹریلیا سے ون ڈے سیریز جیتنے کا بڑا کریڈٹ انہی کو جاتا ہے،البتہ ٹی20 اسکواڈ متوازن نہیں ہے، اسی لیے بدترین شکست ہوئی، اس میں صائم ایوب اور فخر زمان کو ہونا چاہیے، پاور ہٹرز اور آل راؤنڈرز بھی تلاش کرنا ہوں گے۔ عاقب نے ایک بڑا کام دورئہ زمبابوے میں اسٹارز کو آرام اور نوجوانوں کو منتخب کرکے کیا،چھوٹی ٹیموں کیخلاف نئے پلیئرز کو ہی موقع دینا چاہیے، اس وقت عاقب پی سی بی کے تھنک ٹینک کا اہم کردار ہیں، البتہ زیادہ ذمہ داریاں لے کر وہ خود کو دباؤ کا شکار کر رہے ہیں، یہاں کسی کو آسمان پر پہنچا کر سیڑھی کھینچ لینے کا رواج عام ہے، فرنچائز کرکٹ الگ ہوتی ہے، وہاں عاطف رانا اور ثمین رانا نے انھیں بھرپور سپورٹ کیا، یہاں کئی لوگ سوال کرنے کیلیے موجود ہوں گے، جب تک ٹیم جیت رہی ہے سب اچھا رہے گا، خدانخواستہ خراب نتائج آئے تو بس کے آگے کوچ کو ہی پھینکا جاتا ہے، جس طرح عاقب ٹی وی پر بیٹھ کر دیگر کوچز و کھلاڑیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے پھر ان کا بھی نمبر آئے گا، اگر وہ اس دباؤ کو جھیل گئے تو پھر طویل عرصے تک فرائض نبھاتے رہیں گے، بصورت دیگر پھر کوئی اور کام تلاش کرنا پڑے گا۔ خیر اس وقت تو عاقب جاوید کامیاب ہیں، بورڈ میں ابھی کوئی بھی کام ہو تو یہی آواز آتی ہے عاقب جاوید ہے نہ اسی کو بلوا لوامید ہے یہ سلسلہ برقرار رہے گا اور وہ کامیابیاں سمیٹتے رہیں گے۔ (نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل