Loading
"مجھے اپنی آنکھوں میں محفوظ کرلو" مصنف: کارلوس فوینتیس، مترجم: محمد عمر میمن، اشاعت: شہرزاد اس کتاب کا عنوان اور آغاز "محمود درویش" کی ایک نظم سے منسلک ہے جسے کارلوس فوینتیس نے خود کہانی میں بھی شامل کیا : "مجھے اپنی آنکھوں میں محفوظ کرلو جہاں بھی جاؤ مجھے اپنے ساتھ رکھو۔۔۔ اپنی آنکھوں سے میرا تحفظ کرو۔ مجھے ایک یادگار کی طرح اپنے ساتھ رکھو۔۔۔ ایک کھلونے کی طرح، مکان کی ایک اینٹ کی طرح ساتھ رکھو ۔۔۔ تاکہ ہمارے بچے یاد رکھیں کہ انھیں واپس جانا ہے۔" یہ حیرت انگیز کہانی اور اس کا پلاٹ ایسا معمہ ہے جس کے متعلق پہلے مطالعے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ بیس بائیس صفحات کے بعد دلچسپی اور تجسس پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ ہمارے جیسے نئے قاری کے لیے اسے جاری رکھنا بڑا امتحان ہو سکتا ہے، جس کی بنیادی وجہ مبہم پلاٹ ہے مگر سونے پر سہاگا نامور مترجم "محمد عمر میمن" صاحب کا ترجمہ ۔ آپ تصور کیجیے ایک پیراگراف (دریا) کو محض ایک جملے(کوزے) میں بند کیا جائے، اس ایک ہی جملے کے ان گنت حصے ہوں تو شروع میں ذہن اتنے ہی ٹکڑوں میں تقسیم ہونے لگتا ہے۔ اس لمحے کاشف رضا صاحب کی ایک تحریر یاد آئی، "نوآموز ادیب اب دمے کے مریض نظر آتے ہیں ، کہ پانچ چھ لفظ لکھنے کے بعد ہانپ کر ایک ختمہ ، یعنی فل اسٹاپ، لگاتے ہیں اور دم توڑ جاتے ہیں۔" لیکن یہ کتاب پڑھتے ہوئے جب سانس پھولا تو اندازہ ہوا یہاں مصنف یا مترجم نہیں بلکہ میں (قاری) اس عارضے کا شکار ہوں ۔اسلوب کو تھام کر چلیں تو کہانی ہاتھ سے چھوٹ جاتی تھی، پلٹ پلٹ کر جملے کا پہلا سِرا ڈھونڈنا پڑا تاکہ یاد آئے اصل بات کیا ہو رہی تھی۔ اس میں یقیناً ہماری کم علمی کے اثرات بھی شامل ہیں ۔ مذکورہ تفصیلات کا ماحصل یہ ہے کہ کتاب "مجھے اپنی آنکھوں میں محفوظ کر لو" کو پڑھنے کے لیے یکسوئی اور مستعدی لازم ہے۔ اگر آپ واقعی مطالعہ سے کچھ نیا سیکھنا چاہتے ہیں، کوئی منفرد کہانی انوکھے انداز میں پڑھنا چاہتے ہیں، تو یہ آپ کے لیے کار گر ثابت ہو گی ۔ مشکل تجربات ہی انسان کو تجربہ کار بناتے ہیں۔ کہانی تین بنیادی کرداروں کے مابین سرگرداں ہے: گسپدن ہِل، کونستیسیا (گسپدن ہِل کی بیوی)، موسیو پلوتنیکوف (کونستینسیا کا سابقہ شوہر اور پڑوسی) اور اس کے علاوہ ایک مردہ طفل ۔ "گسپدن ہِل" ایک سرجن، ادیب اور کتب بین ہے جو بے معنی گفتگو کے بجائے علمی مباحثے کو ترجیح دیتا ہے ۔ وہ اپنی بیوی سے شدید محبت کرتا ہے، اس کی ہر کیفیت سے باخبر رہتا ہے۔ وہ سفر کا شوقین ہے اور فطری جاسوسی کے سبب ہمیشہ چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ "کونستینسیا" ایک متقی ہسپانوی عورت ہے جسے کتابوں اور گھر سے باہر کی دنیا میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ اسے انگریزی نہیں آتی نہ وہ سیکھنا چاہتی تھی۔ وہ سفر سے پرہیز کرتی اور زیادہ وقت عبادت میں گزار کر سکون حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ یہ شادی شدہ جوڑا چالیس سال گزر جانے کے باوجود اولاد سے محروم ہے مگر کونستینسیا (ظاہری طور پر) اولاد کی خواہش رکھتی ہے ۔ ڈھلتی عمر میں وہ "کافکا" کو جسے وہ اپنا روگی بچہ ، اپنا غم زدہ بالک کہتی تھی پڑھنے لگی ۔ "موسیو پلوتنیکوف" کا کردار ایک پراسرار شخصیت ہے ، وہ کونستینسیا کا سابقہ شوہر تھا جو دورانِ ہجرت اپنے خاندان سے کسی انہونی کے باعث جدا ہو گیا ۔ پھر وہ گسپدن ہِل اور کونستینسیا کے پڑوس میں رہائش پذیر ہوا ۔ وہ اکثر قبرستان میں چند نام بڑبڑاتے ہوئے پایا جاتا تھا ۔ اس نے گسپدن ہل کو اپنی موت کی اطلاع دی اور شرط رکھی تم بھی اپنی موت کے دن میرے گھر آ کر آگاہ کرو گے ۔ایک رات جب سامنے والے گھر میں مسٹر پلوتینکوف کی موت واقع ہوئی، عین اسی لمحے کونستینسیا کو بیماری کا دورہ پڑا اور وہ نیم بے ہوشی میں رہنے لگی ۔ اسکی زندگی عبادت اور خوابوں تک محدود ہو گئی ۔ ان دونوں واقعات میں ربط تلاش کرنے کے تجسس میں گسپدن ہِل نے پڑوسی کے گھر کا رخ کیا ۔ اس گھر میں سجی چند مخصوص پینٹنگز اور تصاویر نے اسے مزید الجھایا ۔ سب سے زیادہ حوصلہ شکن وہ تصویر تھی جس میں کونستینسیا کی گود میں چند ماہ کا بچہ تھا اور پہلو میں پڑوسی 'مسٹر پلوتنیکوف'۔ پھر اسکی نظر لکڑی کے ایک تابوت پر پڑی جس میں مسٹر پلوتنیکوف، سفید کپڑوں میں ملبوس، مردہ بچے کا پنجر اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھا ۔گسپدن ہل مزید جانکاری کے لیے ان کے آبائی شہر کو روانہ ہوا اور وہاں ان تین افراد کا ماضی کریدنے لگا ۔ بالآخر اسے کچھ ایسے حقائق معلوم ہوئے جنھیں تسلیم کرنا اور جھٹلانا دونوں نا ممکن تھا ۔ وہ اسی کشمکش میں امریکا واپس لوٹ گیا مگر اس کے بعد کونستینسیا کہیں بھی موجود نہیں تھی۔ اس کہانی کا اختتام ارتقا پر کیا گیا ہے۔ ایک مہاجر خاندان کسی پر تشدد سرزمین سے فرار کے بعد گسپدن ہِل کے گھر پناہ کے لیے پہنچا اور وہاں ایک نئی زندگی کا آغاز ہوا۔ فوینتیس پیچیدہ پلاٹ کے ذریعے ایک جال بنتا گیا جو قاری کو جکڑ کر ایسے منظر میں دھکیل دیتا ہے جو بیک وقت "حقیقی اور تصوراتی" معلوم ہوتا ہے۔ محبوب فرد ہو یا سر زمین دونوں سے جدائی کرب ناک ہے۔ بے بسی میں کی گئی ہجرت بھرے وجود کو زندگی سے خالی کر دیتی ہے۔ اس کہانی کے کرداروں نے یہ دونوں دکھ ایک ساتھ جھیلے ہیں جسے مصنف نے ترحم انگیز طور پر قلم بند کیا ہے۔ معلوم نہیں کون اگلی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوا اور کس کا سفر ادھورا رہا، مگر وہ اگلے تمام برس غمِ فراق میں بھٹکتے رہے۔ اس کہانی کا معمہ جو اختتام کے بعد بھی حل نہیں ہو پایا وہ ہے "موت"۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ یہاں حقیقی موت کا ذکر کیا گیا یا استعاراتی موت کا؟ کون سا کردار فطری زندگی جی رہا تھا اور کون روحانی؟ کس کردار کی طبی زندگی کا خاتمہ کہانی کے کس موڑ پر ہوا؟ یہ سمجھنے کے لیے کتاب کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ لاطینی امریکا کے معاصر ادیبوں میں انتہائی موقر اور منفرد مقام کے حامل "کارلوس فوینتیس" کا تعلق میکسیکو سے ہے۔ کارلوس فوینتیس شعبہ وکالت سے منسلک ہونے کے ساتھ ایک میکسیکن مصنف اور سفارت کار تھے۔ انھوں نے بیشتر تعلیمی اداروں میں بطور لیکچرار بھی خدمات انجام دیں۔ فوینتیس نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری اور صحافت سے کیا۔ 1954ء میں آپ کا پہلا افسانوی مجموعہ "نقاب پوش ایام" کے نام سے شائع ہوا۔ فوینتیس کا پہلا ناول "جہاں ہوا صاف شفاف ہے" 1958ء میں شائع ہوا اور اس کے بعد سے سلسلہ جاری رہا۔ فوینتیس نے ناول اور افسانوں کے علاوہ ڈرامے بھی لکھے ہیں ۔ فوینتیس کے افسانوی ادب میں دو موضوعات بار بار اور شکلیں بدل بدل کر سامنے آتے ہیں۔ پہلا موضوع انسانی رشتے ناتوں کا ہے، بالخصوص جنسیت۔ دوسرا پسندیدہ موضوع لاطینی امریکا کی تاریخ ہے، کولمبس کے زمانے سے بھی پہلے سے جاری تاریخ جو سرابِ خیال بن کر بار بار پلٹتی ہے۔ فوینتیس کی تحریروں پر یورپی جدیدیت پسند مصنفین جیسے کہ جیمز جوائس، ورجینیا وولف اور مارسیل پراؤسٹ کے اثرات پائے جانے کا دعوہ بھی کیا جاتا ہے۔ فوینٹس کے "جادوئی حقیقت پسندی" کے منفرد انداز نے انھیں قومی اور بین الاقوامی پذیرائی عطا کی۔ اس کتاب کے انگریزی ترجمے کی اشاعت پر ایک مبصر نے لکھا: "یہ کہانیاں اپنی حقیقت خود خلق کرتی ہیں، جو کسی ایسی چیز کا استعارہ ہے جس کا نام ہم بھول چکے ہیں مگر جانتے ہیں کہ وہ وجود رکھتی ہے اور اپنی جگہ حقیقت کی نمائندگی کرتی ہے۔ n
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل