Saturday, March 22, 2025
 

ٹرمپ کی متنازع سفری پابندی، امریکی قانون سازوں کا سخت ردعمل

 



واشنگٹن: 30 سے زائد امریکی قانون سازوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ مجوزہ سفری پابندی کو ختم کریں، کیونکہ یہ نہ صرف امریکی معیشت کو نقصان پہنچائے گی بلکہ سفارتی تعلقات کو بھی کمزور کرے گی اور قومی سلامتی کے لیے بھی غیر مؤثر ثابت ہوگی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے نئی سفری پابندیاں عائد کرنے کا حتمی فیصلہ 21 مارچ کو کرنا تھا، تاہم باضابطہ اعلان ابھی تک نہیں کیا گیا۔  رپورٹس کے مطابق، حکومت ممالک کو سرخ (ریڈ)، نارنجی (اورنج)، اور زرد (یلو) زونز میں تقسیم کر رہی ہے، جہاں پاکستان کو "اورنج زون" میں شامل کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستانی شہریوں کو ویزہ حاصل کرنے کے لیے انٹرویو لازمی دینا ہوگا۔ مزید سیکیورٹی خدشات کی صورت میں پاکستان کو "ریڈ زون" میں شامل کر کے ویزوں پر مکمل پابندی بھی لگ سکتی ہے۔ ایریزونا کی ڈیموکریٹ یاسمین انصاری اور الینوائے کے بریڈ شنائیڈر سمیت دیگر امریکی قانون سازوں نے صدر ٹرمپ کو ایک خط لکھا، جس میں کہا گیا کہ یہ پالیسی امریکی معیشت، سفارتی تعلقات اور قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ "بین الاقوامی سفر، تجارت، اور سیاحت ہماری معیشت کے بنیادی محرکات ہیں۔ درجنوں ممالک پر سفری پابندیاں لگانے سے عالمی سپلائی چین متاثر ہوگی، غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہوگی، امریکی کمپنیوں کے لیے ہنرمند ورکرز کی کمی پیدا ہوگی، اور سفارتی تعلقات کو نقصان پہنچے گا"۔ امریکی قانون سازوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے "قومی سلامتی کے خدشات" کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قومیت کو مکمل طور پر سفری پابندی کی بنیاد بنانا ایک غیر مؤثر اور امتیازی فیصلہ ہے۔ امریکی قانون سازوں نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کا سفری بین پہلے بھی ہزاروں خاندانوں کو جدا کر چکا ہے۔ ماضی میں اس پالیسی کے باعث امریکی شہریوں کے عزیز و اقارب، طلبہ، اور پیشہ ور افراد سفری مسائل کا شکار ہوئے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ انتظامیہ یہ نئی سفری پابندیاں نافذ کرتی ہے، تو عالمی سطح پر امریکہ کو سفارتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ امریکی معیشت کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل