Loading
سنگاپور/ڈھاکا: بنگلا دیش کے 2024 کے طلبہ احتجاج کے رہنما شریف عثمان ہادی، جنہیں فائرنگ کے بعد علاج کے لیے سنگاپور منتقل کیا گیا تھا، دورانِ علاج انتقال کر گئے۔
سنگاپور کی وزارتِ خارجہ نے جاری بیان میں کہا کہ ڈاکٹروں کی بھرپور کوششوں کے باوجود ہادی اپنی چوٹوں کے اثرات سے نہ بچ سکے۔
بنگلا دیش کی روزنامہ اخبار کے مطابق ہادی جنہیں آئندہ فروری میں ہونے والے قومی انتخابات میں ڈھاکا-8 حلقے کے ممکنہ امیدوار کے طور پر بھی دیکھا جا رہا تھا، 12 دسمبر کو دارالحکومت ڈھاکا میں ایک بیٹری سے چلنے والی آٹو رکشا میں سفر کے دوران سر پر فائرنگ کا نشانہ بنے۔
حملہ آور نے موٹرسائیکل پر سوار ہو کر انہیں نشانہ بنایا۔ ہادی کو فوری طور پر ڈھاکا میڈیکل کالج اسپتال منتقل کیا گیا۔
مقامی ڈاکٹروں نے بتایا کہ ہادی کا دماغ شدید متاثر ہوا تھا، جس کے بعد انہیں مزید علاج کے لیے 15 دسمبر کو سنگاپور جنرل ہسپتال کے نیوروسرجیکل آئی سی یو میں داخل کیا گیا۔
ہادی 32 سال کے تھے اور طلبہ احتجاجی گروپ انقلاب منچہ کے سینئر رہنما تھے۔ وہ بھارت کے سخت ناقد بھی رہے جو سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کے قریبی اتحادی رہ چکے ہیں، اور حسینہ اب خود ساختہ جلاوطنی میں ہیں۔
انقلاب منچہ نے گزشتہ رات کو فیس بک پر اعلان کیا کہ ہندوستانی بالادستی کے خلاف جدوجہد میں اللہ نے عظیم انقلابی عثمان ہادی کو شہید قبول کر لیا۔
پولیس نے ہادی پر فائرنگ کرنے والے حملہ آوروں کی تلاش شروع کر دی ہے۔ دو مرکزی مشتبہ افراد کی تصاویر جاری کر دی گئی ہیں اور ان کی گرفتاری کے لیے پانچ لاکھ ٹکا (تقریباً 42,000 امریکی ڈالر) انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔
بعض غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق بنگلا دیشی حکام نے عثمان ہادی کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم کی شناخت فیصل کریم مسعود کے نام سے کی ہے، جبکہ اس کے ساتھی موٹرسائیکل چلانے والے شخص کی شناخت عالمگیر شیخ کے طور پر کی گئی ہے۔
تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ دونوں مشتبہ افراد بھارت کی سرحد سے غیرقانونی طور پر بنگلا دیش میں داخل ہوئے تھے اور واردات کے بعد بھارت ہی فرار ہو گئے۔
بنگلا دیش کے ایک اخبار کے مطابق اب تک پولیس اور بارڈر گارڈز نے اس واقعے میں ملوث کم از کم 20 افراد کو گرفتار کیا ہے تاہم قتل کی تحقیقات جاری ہیں۔
مقامی میڈیا کے مطابق ہادی کی ہلاکت کی خبر کے فوراً بعد ڈھاکا اور ملک کے دیگر حصوں میں سیکڑوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔
Angry crowds set fire to the headquarters of Bangladesh’s leading English-language newspaper, The Daily Star, in Dhaka tonight, amid heightened political tensions following the killing of Bangladeshi youth leader Osman Hadi.
The building’s ground floor was set ablaze, forcing… pic.twitter.com/iRidAvcJHt
— 5Pillars (@5Pillarsuk) December 18, 2025
ایک گروپ ڈھاکا کے کرواں بازار میں ملک کے بڑے بنگالی زبان والے اخبار کے ہیڈ آفس کے باہر جمع ہوا اور بعد میں عمارت میں داخل ہو گیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے سرکاری میڈیا کے دفاتر کو بھی نذرآتش کرنے کی کوشش کی۔
چند سو گز دور مظاہرین نے ایک اور میڈیا سینٹر کے دفتر میں داخل ہو کر عمارت کو آگ لگا دی جس کی تصاویر اور ویڈیوز کالر کانٹھا سمیت کئی مقامی میڈیا نے جاری کیں۔
85 سالہ نوبل امن انعام یافتہ اور فروری 12 کے انتخابات تک بنگلا دیش کے سربراہ یونس نے ہفتے کے روز کہا کہ ہادی پر فائرنگ ایک منصوبہ بند حملہ تھا، جسے ایک طاقتور نیٹ ورک نے انجام دیا۔
انہوں نے کسی نام کا ذکر نہیں کیا، لیکن کہا کہ سازشیوں کا مقصد انتخابات کو متاثر کرنا ہے۔
یونس نے مزید کہا کہ یہ حملہ علامتی نوعیت کا تھا جس کا مقصد اپنی طاقت کا مظاہرہ اور پورے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنا تھا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل