Friday, December 19, 2025
 

غزہ؛ ٹھٹھرتی رات میں ننھے محمد کی ماں کی آغوش میں جمتی ہوئی سانسیں ہمیشہ کیلیے بند

 



خیمے کے ایک کونے میں بیٹھی ایمان ابو الخیر کی آنکھیں سوجی ہوئی ہیں، ہاتھ کانپ رہے ہیں اور سینے سے لگی ایک چھوٹی سی تھیلی میں اس نومولود کے کپڑے ہیں جو صرف 14 دن جی سکا۔ یہ کہانی اس دکھیاری ماں ایمان ابو الخیر کی ہے جس نے الجزیرہ کو خصوصی انٹرویو میں اپنا لہو روتا دل کھول کر رکھ دیا۔ غزہ کی یخ بستہ رات نے نہ صرف ایمان کے صرف 14 دن کے بچے کی سانسیں چھین لیں بلکہ ایک ماں سے جینے کی آخری امید بھی۔ ایمان خان یونس کے مغرب میں واقع الماواسی کے پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہیں جہاں بارش کا پانی خیموں میں جمع رہتا ہے اور سرد ہوا ٹینٹ کے ہر شگاف سے اندر گھس آتی ہے۔ 14 دن قبل ہی اس خیمے میں خوشیاں قلقاریاں لے رہی تھیں اور ننھا محمد، امید بن کر آچکا تھا جو نہ تو بیمار تھا نہ ہی کمزور و لاغر۔ بس سردی، وہ سردی جس کے سامنے ماں کی ممتا، باپ کی بے بسی اور خیمے کا مضبوط کپڑا سب بے اثر ہو گئے تھے۔ ایمان ابولخیر نے روتے ہوئے بتایا کہ میں نے اپنے بچے کو خود لوریاں سنا کر رات گئے سلایا تھا لیکن جب درمیانی رات جاگی تو ننھے محمد کا نازک بدن برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔ بے بس و لاچار ماں نے مزید بتایا کہ میرا بچے کے ننھے ننھے ہاتھ و پاؤں اکڑ چکے تھے اور اجلا سفید رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔ انھوں نے کہا کہ میرے بچے کی گرم سانسیں، ٹھٹھرتی سردی میں جم چکی تھیں۔ زندگی ننھے سے ہاتھ سے اپنا دامن آہستہ آہستہ چھڑا رہی تھی اور میں کچھ نہ کرپائی۔ ایمان کے بقول وہ رات معمول کی راتوں سے زیادہ اندھیری تھی، آسمان سے موسلا دھار بارش جاری تھی اور کسی سواری کا دور تک بھی پتا نہیں تھا۔ بچے کے غم میں سسکتی ماں نے مزید بتایا کہ محمد کے والد کسی سواری کی تلاش میں سڑک پر مارے مارے پھرتے رہے لیکن قسمت بھی ہم سے روٹھ چکی تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں خیمے میں اپنے بچے کو سینے سے لگائے کسی معجزے کی منتظر رہی۔ صبح جانوروں کو لے جانے والی گاڑی ملی اور ہم اسپتال پہنچے۔ ایمان نے روتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹرز کے یہ الفاظ ہم پر قہر بن کر ٹوٹے کہ ’’آپ نے آنے میں بہت دیر کردی‘‘۔ میرے محمد کی آنکھوں میں زندگی کا آخری چراغ بہت پہلے ہی بجھ چکا تھا۔ ڈاکٹروں نے ننھے پھول کے مرجھانے کی وجہ شدید سردی کے باعث جسمانی درجہ حرارت میں خطرناک کمی یعنی ہائپوتھرمیا کو بتایا۔ کل تک جس خیمے میں محمد کی پیدائش پر خوشی تھی آج وہ سناٹے سے بھرا ہے۔ دو سالہ بہن مونا کو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے بس وہ بار بار پوچھتی ہے “امی، میرا بھائی کہاں ہے؟ ننھی مونا کا ہر سوال ماں ایمان کے دل پر خنجر بن کر اترتا ہے۔ انھوں نے صحافی سے سوال کیا کہ ہمارے بچوں نے کون سا جرم کیا ہے؟ ہمارے بچے بموں سے مرے، بھوک سے مرے، اور اب سردی سے مر رہے ہیں۔ میرا بچہ پہلا نہیں تھا، اور شاید آخری بھی نہیں ہو گا۔ غزہ میں یہ صرف ایک بچے کی اندوہناک موت کا قصہ نہیں بلکہ یہ اسرائیلی جنگ، محاصرے اور بے حسی کا نوحہ تھا جو غزہ کے بچوں کو ایک ایک کر کے نگل رہا ہے۔ صرف رواں ماہ ہی سردی سے اپنی جانیں گنوانے والے بچوں کی تعداد چار ہو چکی ہے۔ غزہ میں خیمے، گیلا بستر، ٹھنڈی زمین اور بند راستے موت کا کنواں بن چکے ہیں اور دنیا بے حسی کی چادر اوڑھے مزے میں ہے۔  

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل