Loading
پیٹرولیم مصنوعات میں ملاوٹ کا کاروبار اپنے عروج پر پہنچ گیا، لوگوں کی کروڑوں و اربوں روپے مالیت کی قیمتی گاڑیوں اور موٹر سائیکل سمیت دیگر ٹرانسپورٹ کا بیڑا غرق ہوگیا۔ کسی کا انجن تو کسی کا فیول فلٹر پلگ سمیت دیگر آلات خراب ہونے لگے۔ پیٹرول پمپس مالکان نے ذمہ داری اوگرا اور آئل کمپنیوں پر ڈال دی جبکہ موٹر مکینک نے ذمہ داری گندے پیٹرول فروخت کرنے والوں پر مگر عوام دونوں طرف سے لٹ رہی ہے۔ ملاوٹ شدہ پیٹرول بھی ڈلوائے اور پھر لاکھوں روپے گاڑیوں کی مرمت پر لگائے۔ تفصیلات کے مطابق کھانے پینے کی اشیا اور ادویات سے لے کر اب پیٹرولیم مصنوعات میں بھی مختلف کیمیکل، مٹی کا تیل اور ڈیزل کی ملاوٹ شروع ہو چکی ہے۔ ملاوٹ شدہ پیٹرول ڈلوانے کی وجہ سے صرف لاہور میں ایک سے ڈیڑھ سال کے عرصے میں 70 ہزار سے زائد گاڑیوں، ٹرکوں، وین اور 40 ہزار سے زائد موٹر سائیکلوں کے انجن تباہ و برباد ہوگئے۔ لاہور کی 12 ہزار سے زائد چھوٹی بڑی ورکشاپس میں گاڑیوں، وین، ٹرکوں اور موٹر سائیکل رکشہ سمیت دیگر ٹرانسپورٹ کی قطاریں لگ گئی جس کی وجہ سے موٹر مکینک کی چاندی ہوگی مگر ملاوٹ شدہ پیٹرول کی وجہ سے موٹر مکینک بھی پریشان ہیں کیونکہ گاڑیوں، موٹر سائیکل اور رکشہ کو ٹھیک کرتے ہیں جو پھر خراب ہو جاتے ہیں اور لوگ آکر ورکشاپس میں لڑتے ہیں۔ گلبرگ ورکشاپ کے مکینک عمران کے مطابق ملاوٹ شدہ پیٹرول کی وجہ سے امپورٹڈ گاڑیوں کے سینسر سمیت ہیڈ اور پلگ تک خراب ہو جاتے ہیں جس کی مرمت پر 50 ہزار سے لے کر دو لاکھ تک کا خرچ آتا ہے مگر گاہک پھر بھی آکر لڑائی کرتا ہے کہ تم نے کام درست نہیں کیا اور رقم بھی لے جبکہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ ہم نے تو کام تسلی بخش کیا اور آپ کے سامنے ساری نئی چیزیں ڈالیں مگر پیٹرول ملاوٹ شدہ ہونے کی وجہ سے یہ پھر خراب ہوگئے ہیں۔ امپورٹڈ گاڑیوں میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں حساس قسم کے سینسر اور دیگر الیکٹرانک آلات لگے ہوتے ہیں جیسے ہی ملاوٹ شدہ پیٹرول استعمال ہوتا ہے وہ چوک ہو جاتے ہیں جبکہ بہت ساری گاڑیوں کے آئل فلٹر چوک ہو چکے ہیں، جیسے ہی چوک ہوتے ہیں تو اس کے بعد سارا الیکٹرانک سسٹم بھی گاڑیوں کا اڑ جاتا ہے لیکن گاڑیوں کے مالکان اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ بہت سارے لوگوں کو ہم نے جب آئل فلٹر کھول کر چیک کروایا تو اس میں سے گند کے علاوہ کچھ نہ نکلا، ڈلوایا تو انہوں نے پیٹرول تھا لیکن کالا پانی نکلا اور ساتھ ہی ایسے باریک ذرات نکلے جس نے سینسر سمیت دیگر گاڑیوں کے آلات کو تباہ و برباد کر دیا۔ آخر پیٹرولیم مصنوعات میں ملاوٹ کون کر رہا ہے، جب اس سلسلے میں پیٹرولیم ڈیلر ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل خواجہ عاطف سے بات کی گئی تو انہوں نے سارا الزام آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر لگا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ہی ملاوٹ کر رہی ہیں، کراچی پورٹ پر گزشتہ ماہ ایک کمپنی کا جہاز آیا جس کے تیل کے سیمپل اوگرا نے لیے لیکن اس کے سیمپل فیل ہوگئے مگر اس جہاز پر لدے ہوئے تیل کو لے دے کر کلیئر کروا لیا گیا جبکہ موٹروے پر مختلف مقامی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پیٹرول پمپس بھی سیل کیے گئے کہ وہاں پر ملاوٹ شدہ پیٹرول فروخت کیا جا رہا تھا۔ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہمارے پاس تو کمپنیوں کے پیٹرول ٹینک آتے ہیں جو ہمارے پیٹرول پمپس پر آف لوڈ ہوتے ہیں اور وہی فروخت کرتے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات میں ملاوٹ کی وجہ سے صرف عام کسٹمر ہی مشکلات کا شکار نہیں بلکہ پیٹرول پمپس والے بھی مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ لوگ آکر ہم سے لڑتے ہیں اور ہمیں بھی نقصان ہوتا ہے کہ ہمارا ڈسپوزل پمپ خراب ہو جاتا ہے یعنی کہ جس کے ذریعے پیٹرول ڈالا جاتا ہے وہ مشینری بھی ناقص پیٹرول ہونے کی وجہ سے خراب ہو جاتی ہے اور ہمیں بھی لاکھوں روپے نقصان برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور سمیت پنجاب کے مختلف پیٹرول پمپس پر ایک سے ڈیڑھ سال کے دوران ایک ہزار سے زائد پیٹرول کے ڈسپوزیبل پمپ خراب ہوئے جن کی ریپیئر پر لاکھوں روپے لگے۔ اوگرا بھی صحیح کام نہیں کر رہی، ضلعی اور صوبائی حکومتوں کا کام ہے کہ وہ ملاوٹ شدہ پیٹرول کی فروخت کو روکیں لیکن جو تیل کا جہاز خراب پیٹرول ہونے کے بعد کلیئر ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے، جب اس کے سیمپل فیل ہوگئے تھے وہ ناقص تھا تو اس کمپنی کے جہاز میں موجود تیل کو مارکیٹ میں آنا ہی کیوں دیا گیا، اس جہاز کو واپس لوٹا دینا چاہیے تھا مگر اس کمپنی نے اوگرا کی ملی بھگت سے اس جہاز کو کلیئر کروا لیا۔ اب وہی تیل جب مارکیٹ میں آئے گا تو لوگ فروخٹ کریں گے اور شامت پیٹرول پمپ والوں کی آئے گی۔ خواجہ عاطف نے بتایا کہ ہم بھی نہیں چاہتے کہ ہمارے پیٹرول پمپس سے ملاوٹ شدہ پیٹرول فروخت ہو کیونکہ ایک بار ساخت خراب ہوگئی تو پھر کوئی اس پیٹرول پمپ سے پیٹرول ہی نہیں ڈلوائے گا، ہاں کچھ پیٹرول پمپس پر مقدار کم ڈالی جاتی ہے ہم اس کے خلاف ہیں اور اس معاملے میں حکومت کے ساتھ ہیں، ان کے خلاف ایکشن لیتی ہے مگر ملاوٹ شدہ پیٹرول بیچنے اور منگوانے والوں کے خلاف بھی تو کارروائی عمل میں لانی چاہیے مگر اوگرا خاموش تماشائی بن کر یہ کھیل دیکھ رہی ہے، یہ کام تو اوگرا کا ہے لیکن اوگرا کے افسران، اے سی اور ڈی سی اپنی گاڑیوں میں آتے ہیں، تھوڑا سا شیشہ نیچے کرتے ہیں اور پیٹرول پمپس کو سیل کر کے چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس کمپنی کے پیٹرول پمپس ہیں یا جن کمپنیوں سے پیٹرول لیا جا رہا ہے، ان کو چیک کیوں نہیں کیا جاتا، ان کے آئل ڈیپو پر کیوں نہیں چھاپے مارے جاتے، سب کی ملی بھگت ہے اور عوام کے ساتھ ساتھ پیٹرول پمپ مالکان بھی لٹ رہے ہیں۔ زیادہ شکایت کریں تو متعلقہ کمپنیاں جن کے پیٹرول پمپ ہوتے ہیں وہ ان کے معاہدے منسوخ کر دیتی ہے جس سے ہمیں کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں اوگرا سے بات کی گئی تو ان کے جنرل منیجر پبلک ریلیشن عمران غزنوی نے بتایا کہ پیٹرولیم مصنوعات کے معیار کا معائنہ حکومت پاکستان کے منظور شدہ ادارے ہائیڈرو کاربن ڈیویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان کے توسط سے باقاعدگی سے کیا جاتا ہے، معائنہ کا عمل پیٹرولیم مصنوعات کے مکمل ترسیلی نظام پر نافذ ہے جس کے تحت بندرگاہوں پر آنے والی ہر کھیپ جہاز سے اتارے جانے سے پہلے، او ایم سی کے ڈپو اور ریفائنریوں میں ماہانہ بنیادوں پر اور او ایم سی کے مجاز فروخت کنندگان کے آوٹ لیٹس پر اچانک اور بلا اطلاع، پیٹرولیم مصنوعات کا معیار پرکھا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اوگرا کی ہدایات اور پاکستان آئل رولز 2016 کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیاں خود سے معیار کی جانچ پڑتال کا ایک مؤثر اور مضبوط نظام قائم کرنے کی پابند ہیں۔ او ایم سیز اپنے فروخت کنندگان کے آوٹ لیٹس کا معائنہ اپنے متحرک یونٹس کے ذریعے کرتی ہیں اور معیار خراب کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرتی ہیں۔ تاہم، اوگرا ایک ریگولیٹر ہونے کے ناطے او ایم سیز کے خود نگرانی کے نظام پر نظر رکھنے کے لیے مختلف آؤٹ لیٹس کا معائنہ خود بھی کرتا ہے۔ اس کے باوجود، تمام او ایم سیز ملک بھر میں اپنے متعلقہ ریٹیل آؤٹ لیٹس پر تیل کی مصنوعات کے معیار کو یقینی بنانے کے پابند ہیں۔ وزارت داخلہ کی ہدایت پر اوگرا کی جانب سے مالی سال 2023-24 میں ملک بھر کے پیٹرول پمپس پر پیٹرولیم مصنوعات کے معیار کو جانچنے کے لیے ایک مہم چلائی گئی۔ اس سلسلے میں غیر معیاری ایندھن فراہم کرنے والے پیٹرول پمپس پر پاکستان آئل رولز 2016 کے مطابق مجموعی طور پر 28 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ مزید یہ کہ پاکستان آئل رولز، 2016 کی دفعات کے تحت اوگرا صرف آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو لائسنس جاری کرتا ہے نہ کہ براہ راست پیٹرول پمپس کو۔ پیٹرول پمپس کے قیام کے لائسنس کے لیے پیٹرولیم رولز 1937 کے قاعدہ 115(3) کے تحت ضلعی انتظامیہ سے این او سی اور ایکسپلوسوز ڈیپارٹمنٹ کے فارم ’’K‘‘ پر لائسنس درکار ہوتا ہے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ او ایم سیز صرف پیٹرول پمپ ڈیلرز کے ساتھ فرنچائز معاہدے کی پابند ہیں۔ لہٰذا، پیٹرولیم رولز، 1937 کے تحت پیٹرول پمپس کو سیل کرنے کا اختیار مقامی ضلعی انتظامیہ، ایکسپلوسوز ڈیپارٹمنٹ یا پولیس کو حاصل ہے۔ اس سلسلے میں آئل مارکیٹنگ کمپنی سے رابطہ کیا گیا مگر ان کی طرف سے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل