Loading
کبھی دوستی کسی موبائل پر سینڈ کی گئی رِیل نہیں ہوتی تھی، بلکہ وہ ایک سادہ سی مسکراہٹ میں چھپی ہوتی تھی — آدھی پلیٹ بریانی بانٹنے میں، اسکول کی کاپی پر ایک دوسرے کے نام لکھنے میں، اور ایک ہی رنگ کے کپڑے، چشمے، اور گھڑیاں پہننے میں۔ دوستی وہ ہوتی تھی جو خواب بھی ایک جیسے دیکھتی تھی۔ اُس وقت "دوست" صرف ایک لفظ نہیں، بلکہ ایک پوری کائنات ہوا کرتا تھا۔ پہلے زمانے کی دوستیاں خالص ہوتی تھیں — نہ کسی لائک کی طلب، نہ کسی سین یا ویو کا انتظار۔ وہ وقت کسی ہارٹ ایموجی سے نہیں بلکہ دل کی دھڑکن سے جُڑا ہوتا تھا۔ ہم چُھپ کر تصویریں نہیں کھینچتے تھے، بلکہ ہاتھ تھام کر وہ تصویریں بناتے تھے جو دل پر چھپتی تھیں۔ بچپن میں دوستوں کے ساتھ کنچے، گلی ڈنڈا، لٹو اور پتنگ بازی کرتے۔ کھیل کے دوران جھگڑے بھی ہوتے مگر چند لمحوں بعد سب کچھ بھول کر ایک ہو جاتے۔ اسکول کے باہر حلیم کے ٹھیلے سے ایک پلیٹ حلیم اور دو روٹیاں لیتے اور مل کر کھاتے — وہی لمحے عید کی خوشی جیسے ہوتے۔ بارش ہو جاتی تو خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ گلی میں پانی بہہ رہا ہوتا، اور ہم پرانے ٹائر کو دوڑاتے، چیختے چلاتے گلیوں میں بھاگتے۔ بارش کے بعد ہم "بھیمری" پکڑتے — وہ چھوٹی ہوائی جہاز جیسی چیز جو درختوں پر یا دیواروں کے ساتھ چپکی ہوتی تھی۔ ہم اس کی دم میں دھاگہ باندھتے اور اسے ہوا میں گھماتے۔ وہ گھومتی، گنگناتی، اور ہمارے بچپن کی فضاؤں کو موسیقی بخشتی۔ یہ سب کچھ معمولی لگتا ہے، مگر آج جب یاد آتا ہے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور دل کہتا ہے: "کاش وہ دن لوٹ آئیں... وہ دوست، وہ کھیل، وہ بارشیں، وہ بےفکری!" عید سے کچھ دن پہلے دوستوں کو کارڈز دیے جاتے۔ لڑکے ایک دوسرے کو فلمی ہیروز کے پوسٹ کارڈ دیتے، جیسے کوئی بڑا تحفہ ہو۔ پھر جیسے جیسے عمر بڑھی، کرکٹ، فٹبال اور ہاکی نے جگہ لے لی۔ گرمیوں کی راتوں میں بجلی چلی جاتی تو چھپن چھپائی کھیلنے نکل جاتے — تب "امپریس" یا "بھنڈا" جیسے الفاظ کے معنی نہیں معلوم ہوتے تھے، مگر دل کی نیت صاف ہوتی تھی۔ کرکٹ کے میچ میں پچاس پیسے کی آئس کریم کی شرط لگتی تو جی جان سے کھیلا جاتا۔ کبھی لسی کی شرط ہوتی، جو اُس وقت چار روپے کی مل جاتی تھی۔ روز سائیکل پر بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ لائبریری جانا، آڈیو کیسٹس خریدنا ،بغیر بلائے خوب تیار ہو کر شادی ہال میں جا کر کھانا کھانا، ہوٹل میں ایک پلیٹ نہاری تین دوست مل کر کھاتے اور تین بار گریوی ڈلواتے —گھر سے دور جا کر سگریٹ پیتے۔ یہ سب یادیں نہیں، زندگی کا حاصل تھیں۔ سوسائٹی میں عید میلادالنبی ﷺ، جشنِ آزادی، اور دفاعِ پاکستان پر خود پروگرام کرتے، دوستوں کے ساتھ ملیر ندی تک پیدل جاتے اور امرود توڑ کر کھاتے۔ راتوں کو تاش کی محفلیں جمتی تھیں، ون ڈِش پارٹیاں ہوتیں، کبھی کسی کی مرغی چوری کر کے گھرکے باہر پکائی جاتی — زندگی میں ذائقہ تھا، رنگ تھے، شرارتیں تھی، بےفکری تھی۔ پکنک بھی سادہ ہوتی — ملیر سٹی سے کلری جھیل جانے والی بس میں بیٹھ کر جاتے، راستے سے کھانا خریدتے اور قدرتی مناظر کے درمیان بیٹھ کر کھاتے۔ آج ہزاروں روپے خرچ کر کے بھی وہ مزہ نصیب نہیں ہوتا۔ دوست آج بھی ہیں... وہی نام، وہی چہرے، وہی آوازیں — مگر اب وہ قہقہے صرف ایموجیز میں رہ گئے ہیں، اور ملاقاتیں صرف "آن لائن" کی صورت۔ دوستی اب بھی ہے، لیکن اب وہ صرف موبائل کی اسکرین پر جگمگاتی ہے، وہ گہرائی، وہ بےساختگی، وہ لمس... کہیں کھو گیا ہے۔ مگر ان خالص لمحوں، ان جذبات، اور ان بےلوث تعلقات کو ہمیشہ کے لیے امر کیا ہے فلموں کی موسیقی نے۔ کتنے ہی نغمے دوستی کو مقدس رشتہ بنا کر پیش کرتے ہیں — وہ گانے صرف دھنیں نہیں، بلکہ ہمارے بچپن، لڑکپن اور جوانی کی یادوں کا آئینہ ہیں۔ جب بھی وہ دھنیں بجتی ہیں، دل ماضی کی گلیوں میں لوٹ جاتا ہے، جہاں دوستی صرف لفظ نہیں، زندگی کا سب سے خوبصورت رنگ ہوا کرتی تھی۔ ذیل میں ہم دوست اور دوستی پر بنے ہوئے کچھ مشہور نغمے آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ سنیں، پڑھیں اور محسوس کریں کہ ہمارے شاعروں، موسیقاروں اور گلوکاروں نے دوستی جیسے پاکیزہ رشتے کو کس طرح لازوال گانوں میں ڈھالا ہے۔ ???? "احسان میرے دل پہ تمہارا ہے دوستوں" فلم: گابن (1966) ???? "دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا" فلم: سنگم (1966) ???? "میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے" فلم: آئے دن بہار کے (1966) ???? "یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے" فلم: شعلے (1975) ???? "اے یار سن یاری تیری" فلم: سہاگ (1979) ???? "سلامت رہے دوستاں یہ ہمارا" فلم: دوستانہ (1980) ???? "میرے دوست قصہ یہ کیا یو گیاا" فلم: دوستانہ (1980) ???? "او ہمدم اور ساتھی مجھے تیری دوستی پہ ناز ہے " پاکستانی فلم ساتھی( 1980 ) ???? "تیرا جیسا یار کہاں" فلم: یارانہ (1981) ???? " زندگی امتحان لیتی ہے " فلم: نصیب 1981) ???? "دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے" فلم: آخر کیوں (1985) ???? "اے میرے دوست لوٹ کے آجا" فلم: سورگ (1990) ???? "تیری دوستی سے ملا ہے مجھے" فلم: پیار کا سایہ (1991) ???? " دوستی کرتے نہیں دوستی ہو جاتی ہے " فلم: آرزو (1999) ???? "دل چاہتا ہے ہم نہ رہیں یاروں کے بن" فلم: دل چاہتا ہے (2001) ???? "دوستی ایسا ناتا جو سونے سے بھی مہنگا" ???? "یاروں، یہی دوستی ہے" ???? " دوست کیا خوب وفائوں کا " نصرت فتح علی خان ان نغموں میں صرف محبت یا وفا کی بات نہیں ہوتی، بلکہ یہ دوستی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتے ہیں — کہیں دوستی کا حلف، کہیں اس کی بےلوثی، کہیں دوست کی جدائی کا درد، کہیں دوستی میں ہوئی بےوفائی کا کرب، اور کہیں اس خالص رشتے کی قیمت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ جب بھی یہ دھنیں بجتی ہیں، دل ماضی کی گلیوں میں لوٹ جاتا ہے، جہاں دوستی صرف ایک رشتہ نہیں بلکہ زندگی کا سب سے خوبصورت رنگ ہوا کرتی تھی۔ پہلے دوستی وقت مانگتی تھی، خلوص مانگتی تھی۔ آج کی دوستی سگنل، کنکشن، اور "ریڈ" کے بلیو ٹک پر منحصر ہے۔ دوستی اب بھی ہے، پر وہ پرانا رومانس نہیں رہا — وہ سائیکل کی سواری، چھپ کر فلم دیکھنا، ایک ہی گلاس سے کوک پینا — اب صرف یادوں اور تصویروں میں رہ گیا ہے۔ یہ تحریر اُن لمحوں کے لیے ہے جو سچے تھے، اور اُن دوستوں کے لیے جو بغیر شرط، بغیر فیس، بغیر سٹیٹس ساتھ چلتے تھے۔ آج بھی اگر دل کسی پرانے گانے پر دھڑک جائے، تو سمجھ لیجیے، وہ پرانی دوستی کہیں نہ کہیں اب بھی سانس لے رہی ہے۔ آپ کی زندگی میں دوستی سے جڑی کوئی خوبصورت یاد ہے؟ یا کوئی ایسا نغمہ جسے سنتے ہی آپ کو اپنے پرانے دوست یاد آ جاتے ہیں؟ تو کمنٹ سیکشن میں ضرور بتائیں۔ کیونکہ دوستی صرف جینے کا نام نہیں، بلکہ اسے بانٹنے کا بھی نام ہے۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل