Loading
سعودی عرب میں نامور صحافی اور بلاگر 40 سالہ ترکی الجاسر کی سزائے موت پر آج عمل درآمد کردیا گیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صحافی ترکی الجاسر کو 2018 میں ان کے گھر سے گرفتار کرکے موبائل اور لیپ ٹاپ تحویل میں لے لیئے گئے۔ عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ ترکی الجاسر کے موبائل اور لیپ ٹاپ سے ایسا مواد ملا تھا جو ملک سے غداری اور جاسوسی کے ذمرے میں آتا ہے۔ صحافی ترکی الجاسر کا مقدمہ کب اور کہاں چلا اس کی تفصیلات منظرِعام پر نہیں لائی گئیں۔ تاہم سعودی حکام کا کہنا ہے کہ سنگین جرائم میں ترکی الجاسر کو سزائے موت سنائی گئی تھی جس کی توثیق ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بھی کی تھی۔ دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں نے الزام عائد کیا کہ صحافی ترکی الجاسر کو ٹویٹس میں سعودی شاہی خاندان اور ان کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے پر سزا دی گئی۔ صحافیوں کی حقوق کی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے بقول سعودی حکام کا دعویٰ تھا کہ الجاسر ایک ایسے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے پیچھے تھے جو شاہی خاندان کے خلاف کرپشن کے الزامات شائع کرتا رہا۔ سعودی حکام کے مطابق صحافی ترکی الجاسر پر شدت پسند گروہوں سے متعلق متنازع ٹویٹس کرنے کا بھی الزام تھا۔ ترکی الجاسر نے 2013 سے 2015 تک ایک ذاتی بلاگ بھی چلایا اور عرب بہار تحریک کے حق، خواتین کے حقوق، اور بدعنوانی جیسے موضوعات پر کھل کر لکھا۔ ان کا شمار سعودی عرب کے ان آوازوں میں ہوتا تھا جنہوں نے اصلاحات کے حق میں آواز بلند کی۔ سعودی عرب پر پہلے بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں سزاؤں اور ان کے طریقوں جیسے سر قلم کرنا اور اجتماعی سزائیں دینے پر سخت تنقید کرتی رہی ہیں۔ یاد رہے کہ سعودی عرب میں گزشتہ برس 2024 میں 330 مجرموں کو سزائے موت دی گئی تھی اور رواں برس کے پہلے 5 ماہ میں بھی یہ تعداد 100 سے تجاوز کرچکی ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل