Loading
دھوئیں کا تعلق صدیوں سے انسانی سرگرمیوں سے رہا ہے، جیسے ایندھن کا جلانا، صنعتی فضلہ، یا جنگلات کی آگ۔ تاہم، جب یہ دھواں دھند، گرد اور خطرناک کیمیائی ذرات کے ساتھ مل کر فضا میں معلق ہو جائے تو اسے ’’اسموگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسموگ ایک زہریلا مرکب ہوتا ہے جو نظر کی حد کو کم کرتا ہے اور انسانی صحت، ماحولیاتی توازن اور معیشت پر سنگین اثرات ڈالتا ہے۔ پاکستان، خاص طور پر پنجاب کے میدانی علاقے، ہر سال خزاں اور سرما کے آغاز میں اسموگ کے شدید اثرات کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ اسموگ کی تباہ کاریوں کا پہلا نشانہ انسانی صحت بنتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق فضا میں باریک آلودہ ذرات (پی ایم 2.5) کی زیادتی سانس کی بیماریوں، دل کے امراض، آنکھوں میں جلن، جلدی مسائل اور وقت سے پہلے اموات کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً 1,28,000 اموات کو فضائی آلودگی سے جوڑا جاتا ہے۔ لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ جیسے شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہوچکے ہیں، جہاں اسموگ کے باعث اسکولوں کی بندش، اسپتالوں میں رش، اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ روزمرہ حقیقت بن چکی ہے۔ زراعت پر اسموگ کے اثرات بھی نہایت اہم اور تشویشناک ہیں، لیکن انہیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ سورج کی روشنی کی کمی کے باعث فصلوں میں فوٹوسنتھیسس کا عمل سست پڑ جاتا ہے، جو کہ پودوں کی نشوونما کےلیے بنیادی حیاتیاتی عمل ہے۔ خاص طور پر گندم، سبزیاں، چارہ اور آئل سیڈز جیسی فصلیں اس سے براہِ راست متاثر ہوتی ہیں۔ فصلوں کی بڑھوتری میں کمی، پیداوار کا گھٹ جانا اور زرعی لاگت کا بڑھ جانا اس کے اہم نتائج ہیں۔ اسموگ میں موجود باریک ذرات جب پودوں کے پتوں پر جم جاتے ہیں تو وہ تنفس، پانی کے تبادلے اور غذائی اجزا کے جذب ہونے کے عمل کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زراعت، خود اسموگ کے بننے میں ایک کردار ادا کرتی ہے۔ خاص طور پر چاول کی فصل کے بعد بچ جانے والی فصل کی باقیات کو آگ لگانا معمول بن چکا ہے۔ یہ عمل کسانوں کے لیے آسان اور سستا تو ہے، لیکن فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، اور زہریلے ذرات کی ایک بڑی مقدار شامل کرتا ہے، جو اسموگ کی شدت کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ بدقسمتی سے، کئی کسان اس مسئلے کی سنگینی سے ناواقف ہوتے ہیں اور اسے زرعی روایت یا لاگت سے بچاؤ کے طور پر جاری رکھتے ہیں۔ اسموگ سے بچاؤ کےلیے ہمیں صرف علامات کا علاج نہیں بلکہ وجوہات پر قابو پانا ہوگا۔ سب سے پہلا قدم فصلوں کی باقیات کو جلانے کے عمل کو روکنا ہے۔ اس کےلیے کسانوں کو عملی تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ بھوسے کو کمپوسڈ کھاد، جانوروں کی خوراک یا بایو انرجی کے طور پر استعمال کرسکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کےلیے ایسی مشینری، جیسے ہیپی سیڈر، زیرو ٹلج ڈرل، اور سپر ایس ایم ایس مشینوں کو سبسڈی پر مہیا کرے تاکہ بھوسہ زمین میں جذب کیا جا سکے اور اگلی فصل کی تیاری میں مدد ملے۔ دوسرا اہم پہلو آگاہی اور شعور کا فروغ ہے۔ صرف قانون بنانا کافی نہیں، بلکہ میڈیا، زرعی اداروں، مقامی علما، اور اسکولوں کو چاہیے کہ وہ اسموگ کے اثرات اور زرعی متبادل طریقوں کے بارے میں مسلسل آگاہی مہمات چلائیں۔ جب تک کسان خود اس مسئلے کو اپنی زمین، پیداوار اور بچوں کے مستقبل سے جوڑ کر نہیں دیکھیں گے، تب تک کوئی پالیسی دیرپا فائدہ نہیں دے سکے گی۔ قانونی اقدامات کا بھی مؤثر نفاذ ضروری ہے۔ بھوسہ جلانے کی ممانعت پر نہ صرف قانون موجود ہے بلکہ اس پر سختی سے عملدرآمد بھی ہونا چاہیے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو وارننگز، جرمانے اور بعض صورتوں میں قانونی کارروائی کا سامنا ہونا چاہیے تاکہ دوسروں کے لیے مثال قائم ہو۔ ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کے بغیر اسموگ پر قابو پانا ممکن نہیں۔ ڈرون، سیٹلائٹ تصاویر اور ریموٹ سینسنگ جیسے جدید ذرائع استعمال کیے جائیں تاکہ فصلوں کی باقیات کو جلانے کی بروقت نشاندہی ہو سکے۔ صوبائی زرعی محکموں کو اس ڈیٹا کی بنیاد پر فوری مداخلت کا اختیار دیا جائے۔ یہ سمجھنا لازمی ہے کہ اسموگ کا مسئلہ صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ قومی بقا کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اس کا حل صرف حکومت، کسان یا شہری اداروں تک محدود نہیں بلکہ ایک اجتماعی سماجی، تعلیمی، اور قانونی کوشش کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو جدید ٹیکنالوجی، بہتر پالیسی، عوامی شعور، اور انفرادی ذمے داری کے امتزاج سے نہ صرف اپنی فصلیں بلکہ اپنی فضا، صحت اور آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ بنا سکتے ہیں۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل