Loading
پاکستان کی یونیورسٹیوں میں سیمسٹر سسٹم اس لیے لاگو کروایا گیا کہ یہ ایک جدید نظام ہے اور جدید اصولوں پر مبنی ہے۔ لیکن مختصر مدت کے بعد اس کے عملی اطلاق میں خامیاں ہی خامیاں اور خرابیاں ہی نظر آئی ہیں، جو طلبا کی تعلیم اور زندگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب کررہی ہیں۔ ان مسائل میں یونیورسٹیوں کا ناقص تعلیمی نظام، طلبا کا استحصال، کرپشن، جنسی استحصال، پی ایچ ڈی سپروائزر کا گھٹیا برتاؤ، بہت زیادہ فیسیں، اور غیرمعیاری تعلیم شامل ہیں۔ پاکستان کی بیشتر یونیورسٹیوں میں فیس کے مقابلے میں تعلیمی نظام معیاری نہیں ہے۔ فیسوں کا تذکرہ کریں تو یونیورسٹیز اب ٹکسال ہیں۔ یونیورسٹیوں کی بہت زیادہ فیسیں نہ صرف طلبا کےلیے بڑا بوجھ ہیں بلکہ والدین کی بھی کمر توڑ دیتی ہیں۔ ایک اٹھارہ انیس گریڈ کا استاد بھی آسانی سے اپنے دو یا تین بچوں کو اچھی تعلیم نہیں دلوا سکتا۔ سیمسٹر سسٹم کا مقصد تو تعلیمی معیار کو بہتر بنانا تھا، لیکن عملی طور پر ایسا نظر نہیں آتا بلکہ ٹیوٹرز کے معاشی معیار کو بہتر بنانا بن چکا ہے۔ سیمسٹر سسٹم میں طلبا کو جو تعلیم ملتی ہے وہ معیار میں بہت پیچھے ہوتی ہے۔ تعلیمی مواد کی کمی، غیر معیاری تدریسی عملہ، اور تعلیمی وسائل کی عدم فراہمی طلبا کی علمی ترقی کو محدود کردیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں طلبا کی تعلیمی قابلیت اور علمی صلاحیت میں کمی آتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں تعلیمی نظام کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا رہ گیا ہے، علم کے حصول کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے۔ بہت سے طلبا صرف ڈگری کے حصول کےلiے یونیورسٹی آتے ہیں اور تعلیمی معیار پر توجہ نہیں دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ڈگری تو حاصل کرلیتے ہیں، لیکن علم اور مہارت میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں تعلیمی نظام کے نقائص کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ سب سے پہلے تو تدریسی مواد کا مسئلہ ہے۔ بہت سی یونیورسٹیوں میں نصاب جدید تقاضوں کے مطابق نہیں ہوتا۔ نصاب کی تجدید کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ طلبا کو موجودہ دور کی ضروریات اور مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق علم مل سکے۔ اس کے علاوہ، تدریسی عملے کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بہت سی یونیورسٹیوں میں ٹیوٹرز کی تعداد کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے طلبا کو مکمل رہنمائی نہیں مل پاتی۔ یہ معمول کے مسائل تو پہلے ہی موجود تھے مگر اس سiمسٹر سسٹم نے تو طلبا کو پیس کر رکھ دیا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ یونیورسٹی میں کتاب معدوم ہوچکی ہے۔ ایم ایس پاور پوائنٹ کی پریزنٹیشن ہی سب کچھ بن چکی ہے۔ دو ہزار صفحے کی کتاب کی دو سلائیڈز ہی کافی ہیں، ایک مڈ کےلیے دوسری فائنل کےلیے۔ یہ کامیابی کا نہیں بلکہ ’’خام یابی‘‘ کا راستہ ہے۔ سیمسٹر سسٹم کی سب سے بڑی خامی طلبا کا استحصال ہے۔ ٹیوٹرز ایسے ایسے حربے استعمال کرکے طالبعلموں سے اپنے ذاتی کام کرواتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ چاپلوسی اور حد سے زیادہ خوشامد کرنے والوں کی سی جی پی آسمانوں کو چھوتی ہے اور خوددار اور محنتی طلبا یا تو کئی کئی بار فیل کردیے جاتے ہیں یا پھر انہیں سیمسٹر ہی دہرانا پڑتا ہے۔ اور پھر بھی پاس ہونے کےلیے اسی راستے سے گزرنا پڑتا ہے جو ٹیوٹرز کسٹمائز کرچکے ہیں۔ ٹیوٹر کو گھر سے لینا، اسے ڈراپ کرنا، شاپنگ کرانا اور ہفتے میں کم از کم ایک بار اچھے ریسٹورینٹ کی یاترا کروانا ہی پاتھ وے ٹو سکسیس (کامیابی کا راستہ) بن چکا ہے۔ ایسا کسی ایک جگہ پر نہیں بلکہ بہت سی یونیورسٹیوں میں فیشن کی طرح رائج ہوچکا ہے۔ طلبا کو اکثر ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں ان کی پڑھائی پر توجہ کم اور غیر تعلیمی سرگرمیوں پر زیادہ دی جاتی ہے۔ پی ایچ ڈی اسکالرز جو آرٹیکل سرقہ کرکے لکھ ہی لیتے ہیں اس میں سپروائزر کا نام ڈالنا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس کے آرٹیکلز کی تعداد میں آٹومیٹک اضافہ ہوتا رہے اور مزید یہ کہ انہیں چھپوانے کے بھی ادارے بن چکے ہیں۔ یہ ادارے معیار نہیں مال لے کر یہ آرٹیکل چھپواتے ہیں۔ ایسا صرف ہمارے ہاں ہی نہیں ہو رہا بلکہ پوری دنیا میں یہ رواج بن چکا ہے۔ یونیورسٹیوں میں کرپشن تعلیمی نظام کو برباد کررہی ہے۔ امتحانات میں نقل، داخلوں میں رشوت، اور تعلیمی اسناد کی فروخت جیسے عوامل نہ صرف تعلیمی معیار کو متاثر کرتے ہیں بلکہ طلبا کے مستقبل کو بھی تباہ کر رہے ہیں۔ یہ نہ صرف تعلیمی معیار کو کمزور کرتی ہے بلکہ طلبا کے مستقبل کو بھی متاثر کرتی ہے۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں جنسی استحصال بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بہت سے طلبا اور طالبات کو جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو کہ نہ صرف ان کے تعلیمی ماحول کو خراب کرتا ہے بلکہ ان کی ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اکثر اوقات متاثرہ طلبا انصاف حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ جنسی استحصال کی صورتیں بھی مختلف ہیں۔ اس میں اساتذہ اور دیگر تعلیمی عملے کی جانب سے طلبا کو ہراسانی شامل ہے۔ مختلف یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی لوگ ہی اس استحصال کو فروغ دینے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ بہاولپور یونیورسٹی کا اسکینڈل واحد اسکینڈل نہیں۔ سیمسٹر سسٹم مجبور ہی اتنا کردیتا ہے کہ اسٹوڈنٹس اپنا تن من دھن پی ایچ ڈی ٹیوٹر کے قدموں میں نچھاور کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات نہ صرف طلبا کی تعلیمی کارکردگی کو متاثر کیا ہے بلکہ ان کی شخصیت کو بھی مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ غیرت مند اور خوددار طلبا و طالبات تو ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ پی ایچ ڈی کرنے والے افراد جس طرح خود تعلیم حاصل کرتے ہیں ویسے ہی اسے آگے منتقل کرتے نظر آتے ہیں۔ پی ایچ ڈی سپروائزر کا غیر معیاری برتاؤ ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ سپروائزرز کا طلبا کے ساتھ نامناسب رویہ، ان سے غیر ضروری کام کروانا، اور تعلیمی معاونت میں کوتاہی جیسے عوامل پی ایچ ڈی طلبا کی زندگی کو مشکل بناتے ہیں۔ سپروائزرز کی جانب سے تعلیمی رہنمائی کے بجائے ذاتی مفادات کا حصول ایک عام رویہ بن چکا ہے۔ کسی نے خوب کہا کہ یہاں ہر محکمے کے ملازمین عوام کو سہولت مہیا کرنے کی نہیں بلکہ اسے تنگ اور پریشان کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں۔ اس سے بھی برا حال پی ایچ ڈی سپروائزرز کا ہے۔ وہ فرعون بن جاتے ہیں، اسکالرز کو گائیڈ کرنے کے بجائے انہیں بلیک میل کرکے مال اینٹھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ نہ وہ ریسرچ پروپوزل میں مدد کرتے ہیں اور نہ ہی تھیسس لکھنے اور تیار کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کسی بھی پاکستانی پی ایچ ڈی کی تحقیق پر کوئی پریکٹیکل کام نہیں ہوا بلکہ ان کا ریفرینس دینا بھی گوارا نہں کیا جاتا۔ سیمسٹر سسٹم میں پائی جانے والی یہ خامیاں طلبا کی علمی ترقی میں بڑی رکاوٹ بنتی جارہی ہیں۔ ان مسائل کا فوری حل انتہائی ضروری ہے تاکہ تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جاسکے اور طلبا کو معیاری تعلیم فراہم کی جاسکے۔ اس سسٹم کو پاکستان کے حقیقی حالات کے مطابق ڈھالنا انتہائی ضروری ہے۔ اسے کچھ اس طرح بنایا جائے کہ طلبا ٹیوٹرز کے استحصال سے بچ سکیں اور محنت کرکے کامیاب ہوں نہ کہ ’’خام یاب‘‘ ہوں۔ نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل