Loading
عمومی طور پر جو لوگ پی ٹی آئی اور بانی پارٹی کی سیاست کا ادراک رکھتے ہیں، وہ اس بات کو تسلیم کریں گے کہ پی ٹی آئی کا دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا کوئی اچھا تجربہ نہیں ہے جب کہ دیگر سیاسی جماعتوں کاکہنا ہے کہ ان کا پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا تجربہ اچھا نہیں ہے۔ بانی پی ٹی آئی اتحادی سیاست کے مقابلے میں سولو فلائٹ کے حامی ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ‘جے یو آئی اور عوامی نیشنل پارٹی کو کرپشن کا طعنہ دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی سیاست ہے کا سامنا ہے تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی اس کے حق میں نہیں ہے۔یہ ہی وجہ ہے سیاسی محاذ پر پی ٹی آئی کو کافی مشکلات کا سامنا ہے جب کہ قانونی مشکلات کا بھی ایک پہاڑ کھڑا ہے۔حالیہ دنوں میں حکومت پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مکالمہ کے کئی دور بھی ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اسی بنیاد پر پی ٹی آئی کے اندر ایک نئی سوچ نے جنم لیا ہے کہ ہمیں مختلف دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک گرینڈ الائنس کی طرف پیش رفت کرنی چاہیے۔اگرچہ پی ٹی آئی نے محمود خان اچکزئی کی قیادت میں پہلے ہی سے گرینڈ الائنس بنایا ہوا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اب اس میں نئی وسعت پیدا کرنی ہے۔خاص طور پر مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی اور جماعت اسلامی کو بھی اس گرینڈ الائنس کا حصہ بنانے کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔جب کہ بلوچستان اور سندھ سے عطا اللہ مینگل سمیت دیگر قوم پرست رہنماؤں کو بھی اتحاد کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ اگر اس گرینڈ الائنس کی موجودگی میں ہم اپنی سیاست کو آگے بڑھائیں تو حکومت پر بھی اور اسٹیبلشمنٹ پر زیادہ مضبوطی کے ساتھ اپناعملی سیاسی دباؤ بڑھا سکتے ہیں۔ اس دباوکے نتیجے میں ہمیں سیاسی ریلیف ملنے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ گرینڈ الائنس کا سیاسی ایجنڈا کیا ہوگا اور کیا جوسیاسی جماعتیں اس کا حصہ بنیں گی وہ کسی مشترکہ سیاسی ایجنڈا پر اتفاق کر سکتی ہیں۔کیونکہ پی ٹی آئی کے سامنے جوبڑے چیلنجز ہیں ایک وہ فوری طور پر سیاسی ریلیف چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے لیڈر سمیت دیگر اسیران ہیں، انھیں رہا کیا جائے۔ دوسراآٹھ فروری کے انتخابات کی منصفانہ اور شفاف تحقیقات یا نئے انتخابات کا مطالبہ ہے۔جب کہ تیسرا بڑا مطالبہ نو فروری کے معاملات کی عدالتی تحقیقات یا عدالتی کمیشن بنانے کا ہے ۔ پی ٹی آئی کے اندر یہ بات پیدا ہوئی ہے کہ ہمیں دیگر سیاسی جماعتوں کے بارے میں محض منفی سوچ کہ اچھی رائے بھی رکھنی چاہیے اور اب پی ٹی آئی کو بھی اپنا سیاسی رویہ بدل کر اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور جو لوگ پی ٹی آئی کے ساتھ کم سے کم ایجنڈے کے اوپر مل کر کام کرنا چاہتے ہیں ہمیں ان کی طرف ہاتھ بڑھانا ہوگا۔ پی ٹی آئی میں یہ بات بھی محسوس کی جا رہی ہے کہ اگر ہم مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو اسے ہماری کمزوری سمجھا جا رہا ہے کہ ہمارے پاس سیاسی آپشن یا مزاحمت کم ہوگئی ہے۔اگر پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور بلوچستان سے کچھ علاقائی جماعتیں بھی اس گرینڈ لائنز کا حصہ بن جاتی ہیں تو یقینی طور پر یہ حکومت کے لیے بہت بڑا سیاسی دھچکا ہوگا۔ پچھلے دنوں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور آرمی چیف کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔اس ملاقات کی تصدیق دونوں اطراف سے کی گئی لیکن سیکیورٹی ذرایع کے بقول یہ ملاقات صرف سیکیورٹی معاملات تک محدود تھی اور اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا۔ اب یہ سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ صرف ایک ملاقات کے بعد کیا پی ٹی آئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات کا معاملہ ختم ہو چکا ہے اور بات مذاکرات سے آگے بڑھ گئی ہے۔کیونکہ اگر مذاکراتی عمل ناکام ہو چکا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی سولو فلائٹ کے بجائے ایک بڑے گرینڈ الائنس کی بنیاد پر آگے بڑھ کر اپنا سیاسی کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔اس سے مراد ایک نئی مزاحمتی سیاست بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں اتحادی سیاست یا گرینڈ الائنس کی کہانی کوئی بہت اچھی نہیں ہے۔گرینڈ الائنس کی سیاست میں چھوٹی سیاسی جماعتیں بڑی سیاسی جماعت یا جماعتوں کے لیے ایک سیاسی آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ان کے سامنے سیاست جمہوریت آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ ذاتی مفادات یا حکومت کو بنانے یا گرانے کا کھیل نمایاں ہوتا ہے۔اس کھیل میں وہ آئین اور قانون سے ہٹ کر کچھ ایسے اقدامات بھی کرتے ہیں جس سے ملک کا جمہوری عمل کمزور ہوتا ہے یا اسے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔اس لیے جب بھی اس ملک کی سیاست میں سیاسی اتحاد بنتے ہیں یا گرینڈ الائنس کی باتیں ہوتی ہیں تو سیاسی پنڈت اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر واقعی کوئی گرینڈ الائنس بننا ہے اور پی ٹی آئی نے اس میں کوئی کردار ادا کرنا ہے سیاسی طالب علم کے طور پر دلچسپی کا سب سے اہم سوال یہ ہوگا کہ اس آلائنس کا بڑا ایجنڈا کیا ہوگا اور کون اس کی قیادت کرے گا یا کون سی جماعتیں اس الائنس کا حصہ بنیں گی۔ مسئلہ محض حکومت کاعملی خاتمہ یا نئے انتخابات کا مطالبہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس ملک میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کا نظام آئین اور قانون کی حکمرانی سمیت قومی جمہوری نظام کی مضبوطی کو بنیاد بنا کر اگر کچھ سیاسی قوتیں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔لیکن یہ خواہش ہم ہمیشہ سے اپنے اندر رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر سیاسی اتحادوں کی حمایت بھی کرتے ہیں مگر عملی طور پر ان اتحادی سیاست کا تجربہ قومی سیاست کے تجربے کے لیے کوئی اچھا شگون ثابت نہیں ہوا۔سازشوں کے اس کھیل نے جمہوری عمل کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کیا۔اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی ایک حقیقت ہے ۔اس سے بھی بات ہونی چاہیے ، اس سے ہٹ کرجوبھی راستہ ہوگا وہ ہمیںجمہوریت سے اور زیادہ دورکردے گا۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل