Sunday, February 02, 2025
 

خواتین کی خدمت میں مصروف ایک باکمال خاتون

 



بلاشبہ ہم اپنے ملک کو عظیم سے عظیم تر بنانے کی تمنا رکھتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک معاشی، صنعتی، سماجی، علمی اور اخلاقی میدانوں میں سب سے آگے نظر آئے مگر کیا ہم اپنی خواتین کو میدان عمل میں لائے بغیر یہ مقاصد حاصل کرسکتے ہیں، ہرگز نہیں، اس لیے کہ ہمارے ملک کی آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ ہمیں اپنی خواتین کو فعال شہری بنانا ہوگا ۔ خواتین کی حقیقی خدمت میں مصروف یہ ادارہ ’’تنظیم فلاح خواتین‘‘ کے نام سے موسوم ہے اس کی روح رواں قمر النسا قمر ہیں جو جگت باجی ہیں جنھیں ضیا الحق سے لے کر محمد خان جونیجو وغیرہ بھی قمر باجی کہہ کر پکارتے رہے، ان کا تعلق ریاست بھوپال سے ہے۔ ریاست بھوپال نے ہندوستانی مسلمانوں پر احسانات کی جو بھرمار کی ہے اسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ کبھی 1947 کے فسادات کے زمانے میں مسلمانوں کو محفوظ جگہ فراہم کی تو کبھی علی گڑھ مسلم کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے میں اپنی خدمات پیش کیں۔ پھر پاکستان کے قیام میں نواب بھوپال حمید اللہ خان کا کردار تو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکے گا، اگر وہ فرنگی حکومت کو مسلمانان ہند کے مطالبہ پاکستان کو تسلیم کرانے کے لیے اپنے ذاتی تعلقات استعمال نہ کرتے۔ مزیدبرآں قیام پاکستان کی دستاویز پر گاندھی کے دستخط نہ کراتے تو شاید پاکستان کا قیام تشنہ ہی رہ جاتا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی نواب صاحب کی عنایات پاکستان پر جاری رہیں۔ 1947 میں پاکستان تو بن گیا مگر ہر طرف فسادات بھڑک اٹھے گوکہ اس وقت ریاست بھوپال مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ ریاست تھی لیکن اس کے باوجود بھوپال کے کچھ پاکستان سے محبت رکھنے والے خاندان بھوپال کو چھوڑ کر تعمیر پاکستان میں حصہ لینے کے لیے قافلہ در قافلہ، جوق در جوق پاکستان کی جانب کھنچے چلے آئے اور اس مملکت خداداد میں آ کر جو اس وقت بے سرو سامانی کے عالم میں تھی اپنے پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ انھی پاکستان پہنچنے والے قافلوں میں ریاست بھوپال کے پولیٹیکل سیکریٹری میر احمد حسین کا خاندان بھی شامل تھا۔ اب وہ تو حیات نہیں رہے تھے۔ ان کے بیٹے نورالدین چشتی اپنے اہل عیال کے ساتھ کراچی آ کر سکونت پذیر ہوگئے۔ اس خاندان کی ایک ہونہار بیٹی قمرالنسا بھی تھیں جو بعد میں اپنی ادبی سماجی خدمات اور خواتین کے حقوق کے لیے پرزور آواز بلند کرتے اور ان کو ملک کا فعال شہری بنانے کی وجہ سے قمر باجی کے نام سے موسوم ہوئیں۔ انھیں بچپن سے ہی سماجی کاموں کے کرنے کا شوق تھا۔ وہ بھوپال میں اپنے وکٹوریہ اسکول میں غریب نادار لڑکیوں کو داخل کرا کے بہت خوشی محسوس کرتی تھیں۔ پاکستان آمد کے بعد بھی سماجی خدمت کیے بغیر چین سے نہ بیٹھیں۔ کراچی میں میٹرک اور پھر ایم اے کیا، سماجی خدمات کے صلے میں 1979 میں کونسلر بنیں اور پھر 1985 میں قومی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئیں وہاں حقوق نسواں کے لیے جدوجہد کی۔ ملکی ترقیاتی منصوبوں اور تعلیمی اداروں کو ملک بھر میں قائم کرنے کے لیے حکومت کو آمادہ کیا۔ اس طرح پاکستان کی خدمت کے جذبے کو پورا کیا۔ قومی اسمبلی کی ممبر کی حیثیت سے کئی ممالک کا دورہ کیا وہاں کے تعلیمی اور سماجی نظام کا مشاہدہ کیا۔ آپ افسانہ نگاری اسکول کے زمانے سے ہی کرتی چلی آ رہی تھیں۔ آپ کے افسانے ملک کے مختلف اخبارات اور جرائد میں شایع ہوتے رہے، تاہم آپ کی شناخت کا سب سے بڑا حوالہ ’’تنظیم فلاح خواتین‘‘ کا قیام ہے۔ 1973 میں آپ نے اس ادارے کی بنیاد ڈالی جو خواتین کے لیے مژدہ جاں فزا ثابت ہوا۔ آپ کے بھتیجے ظہورالحسن شہید کی قوم کے لیے خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں مگر انھیں عوام کی خدمت سے دور کرنے کے لیے کچھ شرپسندوں نے جلد ہی شہید کر دیا۔ قمرالنسا قمر اپنی مادرانہ شفقت، بلند کردار اور جذبہ خدمت کی بدولت خواتین میں بے حد مقبول ہوئیں۔ آپ وہ خاتون ہیں جو اب جدید مغربی تہذیب کی چکا چوند میں بھی باپردہ رہتی ہیں اور انھیں اپنے باپردہ رہنے اور صوم و صلوٰۃ کی پابندی پر بے حد ناز ہے۔ اس سے انھوں نے پاکستانی خواتین کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ باپردہ رہ کر بھی مردوں کی اس دنیا میں اپنے لیے مقام پیدا کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قمر باجی اپنی گونا گوں خوبیوں کی وجہ سے جگت باجی بن گئی ہیں، وہ ایک فعال پاکستانی خاتون ہیں۔ وہ پورے ملک میں عوام کے نزدیک ایک سماجی رہنما اور مذہبی اقدار کی علم بردار کے طور پر اپنی منفرد شناخت رکھتی ہیں، ان کی خدمات صرف کراچی تک محدود نہیں ہیں ملک میں کسی بھی جگہ کے عوام کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ان کی خدمت کے لیے اپنی خواتین ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچ جاتی ہیں۔ ملک میں کہیں زلزلہ، سیلاب، قحط یا بارش کی تباہ کاریاں درپیش ہوں تو ان کا دل تڑپ جاتا ہے اور وہ وہاں کے عوام کی خدمت کے لیے بمع ضروری سامان پہنچ جاتی ہیں اور اگر نہ جاسکیں تو پھر ضروری ساز و سامان وہاں روانہ کر دیتی ہیں۔ وہ بھیجنے والا امدادی سامان اپنے دفتر میں اپنی نگرانی میں ہی نہیں بلکہ خود بھی اس کی تیاری میں ہاتھ بٹا کر متاثرہ علاقے کو روانہ کردیتی ہیں۔ تھر کا علاقہ پاکستان کا ایک پسماندہ خطہ ہے وہاں کے ریگستانی علاقے میں پانی کی ہمیشہ ہی قلت رہتی ہے۔ آپ وہ واحد خاتون رہنما ہیں جنھوں نے وہاں خود جا کر ایک دو نہیں بلکہ مختلف علاقوں میں ایک درجن کنوئیں کھدوائے اور وہاں کے لوگوں سے ہی ان کنوؤں کا افتتاح کرایا یعنی کہ پبلی سٹی کے لیے کسی سرکاری عہدیداروں کو مدعو نہیں کیا۔ ایسا اخلاص ہمیں ملک میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے کشمیر سرحد اور بلوچستان میں آنے والے لرزہ خیز زلزلوں سے ہونے والی ہولناک تباہی سے متاثرہ لوگوں کے لیے نہ صرف امدادی سامان بھیجا ۔ آپ نے تھر سمیت ملک کے مختلف پسماندہ علاقوں میں دینی مدرسے اور اسکول بھی قائم کیے، ساتھ ہی خواتین کے لیے ووکیشنل سینٹر بھی قائم کرائے۔ گزشتہ دنوں کراچی کی نامور ’’محبان بھوپال فورم‘‘ جو ملک میں باکمال لوگوں کو اعزازات اور ایوارڈز دے کر ان کی عزت اور ہمت افزائی کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے کے روح رواں اویس احمد ادیب انصاری نے پاک امریکن کلچر سینٹر کے تعاون سے قمر باجی کو لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے نواز کر حکومت پاکستان کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بھی حقیقی باکمال ہستیوں کو اپنے ایوارڈز عطا کرکے اپنے ایوارڈز کو عزت عطا فرمائے۔

اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

مزید تفصیل