Loading
اسلام جس طرح ہمیں خوشیوں میں دوسروں کا ساتھ دے کر ان کی خوشیاں بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسی طرح دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھنے، اس میں شریک ہونے اور اس کے ازالے کی کوشش کرنے کی تلقین کرتا ہے، ایک مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان بھائی کو بیماری و پریشانی میں مبتلا دیکھ کر اس کے اندر رحم کے جذبات ابھریں اور اس کی مصیبت کا اسے بھی احساس ہو، یقیناً ایک مسلمان کا دوسروں کی تکلیف کا احساس کرکے دل جوئی اور دل داری کی خاطر اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر بیمار پرسی کرنے میں اس فرمانِ مصطفی ﷺ کا عملی اظہار ہوتا ہے کہ جس میں تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ بیمار پرسی سے آپسی تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے، ایک دوسرے کے لیے ہم دردی اور غم خواری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، مریض، اس کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے دل میں بیمار پرسی کرنے والے کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اتحاد و یگانگت کی ایک اچھی فضا قائم ہوتی ہے، گویا سماجی اور دینی دونوں ضرورتیں اس سے پوری ہوتی ہیں، اگر بیماری کے علم کے باوجود مریض کی عیادت نہ کی جائے اور اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی جائے، تو آپس میں عداوت، کدورت، نفرت اور بدگمانی پیدا ہو تی ہے۔ بیمار پرسی مسلمان کا حق: رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا، مریض کی بیمار پرسی کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کے جواب پر یرحمک اﷲ کہنا۔‘‘ (البخاری) حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: اے ابن آدم! میں بیمار تھا، تُونے میری عیادت نہیں کی۔ وہ کہے گا: اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا، حالاں کہ تو رب العالمین ہے۔ اﷲ تعالی فرمائے گا: کیا تُو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تُونے اس کی عیادت نہیں کی، اگر تُو اس کی عیادت کرتا، تو تُو مجھے اس کے پاس پالیتا۔‘‘ (مسلم) بیمارپرسی کے فضائل: مریض دوست ہو، یا دشمن، امیر ہو، یا غریب عیادت کو سنت، اخلاقی فریضہ اور مسلمان کا حق سمجھ کر کرنا چاہیے۔ آج عیادت کا دائرہ سمٹ کر رہ گیا ہے ، معاشرے میں عیادت ایک رسم بن گئی ہے، لوگ اس وجہ سے عیادت کرتے ہیں کہ اگر میں نے عیادت نہیں کی، تو اس کے گھر والے کیا سمجھیں گے، کوئی مال دار، یا عہدہ دار، یا خاص رشتہ دار ہو، تو اس کی عیادت کی جاتی ہے۔ اگر کوئی غریب ہے ، تو پڑوس میں ہونے کے باوجود ایک مرتبہ بھی مزاج پرسی اور اظہارِ ہم دردی نہیں کی جاتی، اس لیے کہ اس سے ہمارا کوئی دنیوی مفاد وابستہ نہیں اور نہ آئندہ اس کی کوئی توقع ہے۔ حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت کو جاتا ہے، تو واپس ہونے تک وہ جنت کے باغات میں ہوتا ہے۔ یعنی عیادت کرنے والا جب سے عیادت کے لیے نکلتا ہے، تو واپس ہونے تک اس طرح ثواب کو حاصل کرنے میں لگا رہتا ہے، جس طرح جنتی جنت کے باغات میں پھل توڑنے میں لگا رہتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح) بیمارپرسی اور ستّر ہزار فرشتے: حضرت ابوفاختہؒ فرماتے ہیں: حضرت علی ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: میرے ساتھ حسن کی عیادت کے لیے چلو۔ (ہم حضرت حسنؓ کے گھر گئے) وہاں حضرت ابوموسی اشعریؓ موجود تھے، حضرت علیؓ نے حضرت ابوموسی اشعریؓ سے پوچھا: ابوموسی! آپ ملاقات کے لیے آئے ہو؟ یا عیادت کی غرض سے آئے ہو؟ حضرت ابوموسی اشعریؓ نے عرض کیا: حضرت حسنؓ کی عیادت کی غرض سے حاضر ہُوا ہوں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو مسلمان صبح کے وقت کسی مسلمان کی عیادت کرتا ہے، شام تک ستر ہزار فرشتے عیادت کرنے والے کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں، اگر شام کے وقت عیادت کرے، تو صبح تک ستّر ہزار فرشتے عیادت کرنے والے کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ تیار کیا جاتا ہے۔ (رواہ ابوداؤد و الترمذی) حضرت ابوہریرہ ؓفرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص کسی مریض کی عیادت کرے، یا کسی دینی بھائی سے ملاقات کرے، تو آسمان سے ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے کہ تم نے اچھا کیا، تمہارا (عیادت و ملاقات کے لیے) چلنا مبارک ہے اور تم نے (عیادت کرکے) جنت میں اپنے لیے ٹھکانا بنا لیا۔‘‘ (رواہ الترمذی ایک مسلمان کا فرض ہے کہ مریض کے ساتھ ہم دردی اور غم خواری کرے، اس کے احوال پوچھے اور جہاں تک ہوسکے، اس کا تعاون کرے، اسی کو عربی زبان میں عیادت کہا جاتا ہے۔ عیادت کا ادنی درجہ یہ ہے کہ بیمار کی مزاج پرسی کی جائے، یا تیمار داروں سے اس کے احوال معلوم کر لیے جائیں۔ عیادت کا اعلی درجہ یہ ہے کہ مریض کے ساتھ مکمل غم خواری کی جائے، یعنی بیمار کے پاس پیسے کی کمی ہے اور اﷲ نے وسعت دی ہے، تو پیسوں کے ذریعے اس کا تعاون کریں، تاکہ صحیح علاج کیا جا سکے، اگر خدمت کی ضرورت ہو، تو خدمت کی جائے، صحیح طبیب کی راہ نمائی کی جائے، اپنے علم کے اعتبار سے صحیح اور مفید مشورے دیے جائیں۔ تیمار داروں (اور مریض کے رشتہ داروں) پر لازم ہے کہ وہ اپنی وسعت و مالی استطاعت کے موافق مریض کی خدمت، اس کا علاج اور اس کی ضروریات کی تکمیل کریں۔ شریعت ہمیں بتاتی ہے کہ مریض بوجھ نہیں بل کہ سببِ رحمت ہے، اس کی خدمت اور تیمارداری اجر و ثواب کے حصول کا ذریعہ ہے۔ بیمارپرسی کا طریقہ اور آداب: (1) جب بیمار پرسی کے لیے جائے تو باوضو جائے۔ (2) اﷲ کی رضا اور ثواب کی نیت سے عیادت کی جائے، جاہ و منصب، مال و منال کی رعایت، یا ترک ِعیادت پر ملامت سے بچنے کی غرض سے عیادت نہ کی جائے۔ حضر ت انس ؓفرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص وضو کرے، اچھا وضو کرے اور اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے (کسی دنیوی غرض سے نہ جائے بل کہ محض رضائے الٰہی اور) ثواب کی نیت سے جائے تو اﷲ تعالی اس کو جہنم سے ساٹھ سال کی مسافت کے بہ قدر دُور کر دیتے ہیں۔‘‘ (ابوداؤد) (3) مریض کے سامنے اس کو خوش کرنے والی باتیں کی جائیں، ایسی باتیں نہ کی جائیں جو اس کے دل کو تکلیف پہنچانے والی ہوں، یا اس کے فکر و اندیشے میں اضافہ کرنے والی ہوں۔ مریض کو تسلی دے اور کہے: ان شا اﷲ ٹھیک ہوجائیں گے، کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ رسول اﷲ ﷺ جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے، تو ایسے ہی کلمات سے تسلی دیتے تھے: کوئی تکلیف یا گھبراہٹ کی بات نہیں ہے، اس لیے کہ بیماری گناہوں کی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ہے۔ ان شا اﷲ۔ ( بہتر ہی ہوگا) (4) مریض کو صحت و تن درستی اور زندگی کی امید دلائے، مریض کو ناامید بنانے والی گفت گُو سے احتراز کرے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب تم بیمار کے پاس جاؤ تو اس سے عمر کی درازی اور لمبی حیاتی کی بات کرو، درازی عمر کی بات سے اس کی عمر لمبی اور بیماری دور نہیں ہوجائے گی لیکن بیمار خوش اور مطمین ہوجائے گا۔‘‘ (الترمذی) (5) مریض کے پاس زیادہ دیر نہیں ٹھہرنا چاہیے۔ بعض مرتبہ مریض کو آرام یا بعض خاص ضروریات کی تکمیل کا تقاضا ہوتا ہے، بیمار اور تیماردار مہمان کے واپس ہونے کے انتظار میں رہتے ہیں، زبان سے کہہ نہیں سکتے جس کی وجہ سے ان لوگوں کو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے اس لیے مریض اور تیمار داروں سے چند تسلی کے کلمات کہہ کر فوراً چلے آنا چاہیے البتہ اگر مریض خود خواہش مند ہو اور اہل خانہ کو بھی کوئی زحمت نہ ہو تو دیر تک بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ (6) مریض کے پاس شور و شغب نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ شور و شغب سے مریض کو بھی اذیت ہوتی ہے اور تیمار داروں کو بھی بُرا لگتا ہے ۔ (7) مریض کسی کھانے پینے کی چیز کی خواہش کرے اور وہ چیز اس کی صحت کے لیے نقصان دہ نہ ہو تو وہ چیز مریض کے لیے فراہم کرنا چاہیے۔ (8) جب بیمار پرسی کے لیے جائے تو مریض سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے اس لیے کہ مریض کی دعا قبول ہوتی ہے۔ (9) عیادت کے لیے مناسب وقت میں جائے کیوں کہ بعض اوقات مریض اور تیماردار کے آرام اور ضروریات کا ہوتا ہے، اس لیے ان چیزوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ غیر مسلم کی بیمار پرسی: فخر کونین حضرت محمد مصطفی ﷺ بچوں اور عورتوں یہاں تک کہ غیر مسلموں کی عیادت کے لیے بھی تشریف لے جاتے تھے، اس لیے کہ انسانیت کی بنیاد پر وہ بھی ہم دردی کے مستحق ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی عیادت کرنا تو اسلامی حق ہے مگر اس سے آگے بڑھ کر انسانیت کی بنیاد پر بلاتفریقِ مذہب و ملت غیر مسلم برادرانِ وطن کی مزاج پرسی بھی اجر و ثواب سے خالی نہیں، اگر اس میں تبلیغِ اسلام کی نیت کرلی جائے، تو پھر اس کے بہتر اور مفید نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایک یہودی لڑکا رسول اﷲ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہوگیا۔ رسول اﷲ ﷺ اس یہودی لڑکے کی خبر گیری اور عیادت کے لیے تشریف لے گئے اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور اس کو اسلام کی دعوت دی اور فرمایا: اسلام قبول کرلو! (اس کا باپ بھی وہیں بیٹھا ہُوا تھا) وہ یہودی لڑکا اپنے باپ کو دیکھنے لگا۔ باپ نے کہا: بیٹا! ابوالقاسم (ﷺ) کی بات مان لے۔ بیٹے نے فوراً کلمہ پڑھا اور انتقال کرگیا۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: تمام تعریفیں اس اﷲ کے لیے ہیں جس نے اس بچے کو جہنم سے بچالیا۔(رواہ البخاری) اﷲ تعالیٰ ہمیں اسلامی اصولوں کے مطابق بیماروں کی بیمار پرسی و تیمار داری کرنے کی توفیق دے، معاشرہ میں اسی سے اخوت و بھائی چارے کی فضاء قائم ہوگی۔ آمین
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل