Loading
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے دوسرے مرحلے میں مستقل جنگ بندی کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا ایک ساتھ تبادلہ کرنے کی پیش کش کی ہے۔ دوسری جانب چینی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے دو ریاستوں، فلسطین اور اسرائیل کے قیام کی قرارداد کو منظور ہوئے ستر سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن فلسطینیوں کے پاس اب بھی اپنا ملک نہیں ہے۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کا حالیہ معاہدہ بہت مشکل سے طے پایا ہے، غزہ میں فائر بندی معاہدے کے مستقبل پر ابہام کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ بالخصوص دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات ابھی تک شروع نہیں ہو سکے ہیں۔ پندرہ ماہ سے جاری جنگ کسی نہ کسی طرح تھمی تو ہے، لیکن آنے والے دنوں اور ہفتوں میں جو کچھ سامنے آئے گا اس کے بیج ماضی میں بوئے گئے تھے۔کئی دہائیوں سے مغربی ذرائع ابلاغ کے ادارے، ماہرین تعلیم، فوجی ماہرین اور عالمی رہ نما قضیہ فلسطین و اسرائیل کو پیچیدہ اور تعطل کا شکار قرار دیتے رہے ہیں۔ عرب ملکوں اور بہت سے فلسطینیوں کو بھی یہ شبہ ہے کہ اسرائیل اس موقع کو ایک الگ ریاست کے فلسطینیوں کے مطالبے کو ختم کرنے کے لیے، آبادی کے تناسب میں زبردستی ایک مستقل تبدیلی کے واسطے استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ تمام تاریخی مثالیں اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ جب بھی فلسطینیوں کو فلسطینی علاقے سے نکلنے پر مجبورکیا گیا انھیں کبھی واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی اور مصر غزہ میں اس نسلی تطہیرکے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتا اور ان عوامل کے سبب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آنے والے دنوں کا منظرنامہ کیا بنے گا۔ مصر اور اردن کی سرحدیں غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے سے ملتی ہیں اور دونوں ہی ملک فلسطینیوں کو پناہ دینے سے انکار کرچکے ہیں۔ دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کا مستقل بنیادوں پر اخراج چاہتا ہے تاکہ فلسطینیوں کی ایک الگ ریاست کے مطالبے کو ختم کیا جاسکے۔ اردن میں پہلے ہی بڑی تعداد میں فلسطینی آباد ہیں۔ اس وقت فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کی نسلوں کی تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب ہے اور ان میں سے زیادہ تر مغربی کنارے، غزہ، لبنان، شام اور اردن میں کیمپوں وغیرہ میں مقیم ہیں۔ فلسطینیوں کی حالیہ تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اپنے گھروں اور علاقوں سے بے دخلی اس خوف کی بنیاد دکھائی دیتی ہے کہ دوسرے عرب ملک انھیں لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی معاہدے کے بعد غزہ کے رہائشیوں کو یہ اُمید تھی کہ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے لیکن ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ البتہ ایسا نظر آ رہا ہے کہ رکاوٹیں دورکرنے کے سلسلے میں وساطت کاروں کی کوششیں کامیاب ہوگئی ہیں۔ ایک اسرائیلی سیاسی ذمے دار نے تصدیق کی ہے کہ ملبہ اٹھانے کے لیے اس مشینری کے داخلے کی اجازت معاہدے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے سلسلے میں ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانی صورتحال ’’ تباہ کن‘‘ ہے۔ جنگ سے پہلے بھی غزہ کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت میں رہتا تھا۔ تقریباً نصف آبادی بے روزگار تھی 46.6 فیصد۔ اس کا تناسب نوجوانوں میں زیادہ تھا، 15 سے 29 سال کی عمرکے 62.3 فیصد افراد بے روزگار تھے۔ اُردو زبان میں یہ محاورہ مستعمل ہے کہ ’’ چشمِ فلک‘‘ نے دیکھا کہ دلی میں کیا کیا تباہی ہوئی تھی، تاہم اکیسویں صدی میں ’’چشمِ بشر‘‘ نے غزہ میں ہونے والی تباہی و بربادی کو شب و روز لائیو دیکھا۔ بالآخر غزہ میں 15 ماہ کے بعد مرحلہ وار سیز فائر کا اعلان کیا گیا، مگر مکمل جنگ بندی تک ابھی کئی کٹھن مقامات آئیں گے۔ اس قتل و غارت گری نے بڑی بڑی ٹیکنیکل اور ڈیجیٹل ترقی کرنے والی دنیا کو بتا دیا ہے کہ آج کا طاقتور انسان بھی اُتنا ہی وحشی اور درندہ صفت ہے جتنا غاروں اور جنگلوں میں رہنے والا تھا۔ گزشتہ 15 ماہ کے دوران اسرائیل نے ٹنوں وزنی بم جہازوں کے ذریعے گرا کر اور ٹینکوں و توپوں سے گولہ باری کر کے کم از کم 48 ہزار فلسطینیوں کو شہید کیا جن میں سے آدھی تعداد بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی ہے۔ ایک لاکھ 10 ہزار کے قریب غزہ کے شہری شدید زخمی ہیں۔ اسی طرح 23 لاکھ کی آبادی میں سے 20 لاکھ شہری جانیں بچانے کے لیے شمالی غزہ سے نکل کر در بدرکی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ تقریباً 90 فیصد اسپتال تباہ ہو چکے ہیں‘ اکّا دُکّا باقی میڈیکل سینٹرز بھی ادویات و آلات سے محروم ہو چکے ہیں۔ صد آفرین ہے فلسطینی و غیر ملکی ڈاکٹروں اور نرسوں پرکہ دم توڑتی ہوئی سہولتوں کے باوجود وہ زندگی کی آس ٹوٹنے نہیں دے رہے اور کسی نہ کسی طرح مریضوں کا اپنی قوتِ ارادی سے علاج کر رہے ہیں۔ غزہ کے تمام تعلیمی ادارے، سڑکیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ایک بار پھر کُل عالم نے براہِ راست اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بڑی طاقتوں کی پروردہ اور مشرقِ وسطیٰ میں پلانٹڈ صہیونی ریاست کتنی ظالم اور سفاک ہے۔ دنیا پر یہ بھی واضح ہوا کہ اسرائیل کسی بین الاقوامی قانون اور ضابطے کو نہیں مانتا۔ وہ امریکی و یورپی حکومتوں کی شہ پر اپنی من مانی کرتا ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے عزائم صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ وہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ اس توسیعی اسرائیلی ریاست میں شام، لبنان، اُردن اور خیبر تک کے علاقے شامل ہیں۔ صہیونی ریاست نے اس معاملے میں انتہائی دیدہ دلیری سے کام لیتے ہوئے گریٹر اسرائیل کا نقشہ اپنی سرکاری ویب سائٹ پر بھی جاری کردیا ہے۔ موجودہ دگرگوں حالات میں حماس نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ اچھی شرائط پر سیز فائرکیا ہے۔ مکمل فائر بندی کے بعد ہی اہلِ غزہ کی وسیع تر مشاورت سے حماس مستقبل کے لیے ایسی حکمت عملی وضع کرے کہ جس میں جوش کے ساتھ ساتھ ہوش بھی ہو۔ ایسے میں امریکا جیسی سپر پاورکی قیادت کو دانشمندی اور بصیرت سے کام لینے کی ضرورت ہے، یہ اَمر افسوسناک بلکہ تشویشناک ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے ظلم پر اِس سے بازپرس کرنے کی بجائے اُلٹا فلسطینیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان کی اپنے گھروں سے جبری بے دخلی کا منصوبہ پیش کردیا ہے، ابھی تو ان کی واپسی بھی درست طریقے سے شروع نہیں ہوئی ہے، تباہ حال فلسطینیوں نے ٹھیک طرح سے سکون کا سانس بھی نہیں لیا، ابھی تو ملبے سے لاشیں نکالی جا رہی ہیں کہ ان کو ایک اور آزمائش میں ڈالنے کی ٹھان لی گئی ہے۔ تباہ حال فلسطینی طویل جنگ کے بعد، 48 ہزار شہادتوں اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہونے کے باوجود اپنی زندگی دوبارہ سے شروع کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی خاص اچھی نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ نے صدر جوبائیڈن کا حکم معطل کرتے ہوئے اسرائیل کو دو ہزار پاؤنڈ وزنی بموں کی فراہمی کی اجازت دے دی ہے، اسرائیل ان بموں کو جنوبی غزہ کی پٹی میں واقع رفع کے مقام پر حملے میں استعمال کرنا چاہتا تھا، کیونکہ وہاں 14 لاکھ فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ امریکا ویسے ہی گزشتہ سال میں سب سے زیادہ اسلحہ فروخت کرنے والا ملک ہے، اسرائیل کو اس نے اربوں ڈالرکا اسلحہ بیچا ہے اور اب وزنی بموں کی فراہمی کی اجازت دینے سے تو ان کے اپنے امن و سلامتی کے فلسفے کی نفی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس اقدام سے اسرائیلی وزیراعظم کے حوصلے بھی کافی بلند ہوئے ہیں اور انھیں نئی انتظامیہ کی حمایت کی امید بھی پیدا ہو گئی ہے۔ اصولی طور پر تو جنگ بندی کے حالیہ معاہدے کے بعد مفاہمت اور امن کا عمل تیزی سے آگے بڑھانا چاہیے تھا، امریکا اسرائیل کی پشت پناہی سے پیچھے ہٹ جاتا، مظلوم فلسطینیوں کی داد رسی کا بندوبست کرتا، باہمی مشاورت کے ساتھ تعمیر نو کا ایسا منصوبہ پیش کرتا جو سب کے لیے قابل قبول ہوتا اور اس سے مزید کوئی تنازعہ کھڑا ہونے کا اندیشہ نہ پیدا ہوتا۔ صدر ٹرمپ کو مصر اور اْردن یا دیگر عرب ممالک پر دباؤ ڈال کر اپنی بات منوانے کی بجائے کوئی اور راستہ ڈھونڈنا چاہیے۔ امریکا امن و سلامتی کا علمبردار بن کر دوبارہ عظیم ہونے کی خواہش رکھتا ہے تو عملی طور پر اس پر عملدرآمد بھی کرے۔ اسرائیلی وزیراعظم فلسطینیوں کو اپنے ساتھ ساتھ امریکا کا دشمن بھی قرار دے رہے ہیں، معاملہ حقِ دفاع کی حمایت سے آگے بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ مناسب یہی ہے کہ امریکی صدر اپنی اسرائیل نواز اور فلسطین مخالف پالیسی کا از سر نو جائزہ لیں، مجوزہ منصوبہ خود اْن کی اپنی جنگیں بند کرانے کے اعلان کی نفی کرتا نظر آ رہا ہے۔ ظلم، زیادتی اور دھونس کے سر پر ہونے والے فیصلے دیرپا ثابت نہیں ہوتے، اسرائیل فلسطین تنازعے کے مستقل حل کے لیے سب کو غیر جانبداری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے یہ بنیادی شرط ہے۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل