Loading
ساری دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے،نئے نئے چیلنجز سامنے آ رہے ہیں۔دنیا کے امیر ترین اور صنعتی پیداوار میں سب سے آگے ممالک کے کارخانوں کی چمنیاں فضا کو آلودہ کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لے جا رہی ہیں۔ کاربن کے بے تحاشہ اخراجCarbon Emission نے دھرتی کا درجۂ حرارت بڑھا دیا ہے۔گلوبل وارمنگ کی وجہ سے کاربن کا زیادہ اخراج کرنے والے ممالک ہی متاثر نہیں ہو رہے اس سے وہ ملک بھی لپیٹ میں آرہے ہیں جن کا کاربن اخراج میں حصہ بہت کم ہے۔پاکستان پچھلے چند سالوں سے موسمیاتی تبدیلیوں سے بہت بڑے پیمانے پر متاثر ہوا ہے۔ہمارا ملک چونکہ ایک چھوٹی اکانومی ہے۔ یہ معاشی حوالے سے ایک غریب ملک ہے اس لیے اس کے پاس ان موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ریسورسز بہت کم ہیں۔پاکستان پچھلے مسلسل تین سالوں سے سیلابوں کی زد میں رہا ہے۔خیبر پختون خواہ،جنوبی پنجاب،سندھ اور بلوچستان کے کچھ علاقے سیلابوں سے تباہ برباد ہوئے ہیں لیکن تباہ حال لوگوں کی آبادکاری کے لیے قومی اور صوبائی حکوموں کے پاس فنڈز کی کمی بھی ہے اور کرپشن کی وجہ سے فنڈز کا صحیح استعمال بھی نہیں ہوپاتا۔بین الاقوامی برادری نے فنڈز مہیا کرنے کے بے شمار وعدے کیے ۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئتریس نے خود پاکستان آکر حالات کا جائزہ لیا اور وسیع پیمانے پر تباہی و بربادی کو دیکھ کر پاکستان کو امداد دینے کی اپیل کی لیکن زیادہ تر کیے گئے وعدے وعدے ہی رہے،پورے نہیں ہوئے۔ موسمیاتی تبدیلیاں اب ایک حقیقت ہیں۔ ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن نظر نہیں آتا کہ ہماری حکومتوں کی یہ ترجیح ہے۔ امسال پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ پنجاب جو پورے ملک کے لیے خوراک پیدا کرنے والا پاور ہاؤس ہے اور شمالی علاقہ جات میں بارشیں یا تو ہوئی ہی نہیں یا پھر بس ایک دو چھوٹی چھوٹی بارشیں ہوئی ہیں۔پنجاب کے بارانی علاقوں میں تو اکتوبر کے پہلے ہفتے کے بعد کوئی بارش سرے سے ہوئی ہی نہیں۔اس سے پہلے یہ دیکھنے میں آتا تھا کہ ہر چند سال کے بعد ایک سال ایسا آ جاتا تھا جب وسط اکتوبر سے دسمبر تک موسم خشک رہتا تھا لیکن سردیوں میں بارشیں ہوتی تھیں اوریہ کئی کئی دن تک ہلکی ہلکی لگی رہتی تھیں۔ البتہ یہ کبھی بھی نہیں ہوا کہ پورا اکتوبر،نومبر،دسمبر،جنوری اور فروری بارشوں سے محروم گزر جائے۔قیامِ پاکستان کے بعد یہ شاید پہلی مرتبہ ہے کہ ستمبر کے آخر سے اب تک یعنی فروری کے آخری دنوں تک موسم بالکل خشک ہو۔مویشیوں کو پلانے والے پانی کے جوہڑ سوکھ چکے ہیں۔فصلوں کو شدید نقصان ہوا ہے۔اس صورتحال میں خوراک کی شدید قلت ہو سکتی اور جان کے لالے پڑ سکتے ہیں۔ لمبے عرصے تک بارشوں کے نہ ہونے سے فصلیں برباد ہو رہی ہیں۔جن لوگوں نے وقت پر فصلیں کاشت کر دی تھیں،ان کی فصلیں تو اُگ آئی تھیں لیکن بارانِ رحمت نہ ہونے کے سبب یہ فصلیں اوپر نہیں اٹھ سکیں اور کوتاہ قد رہ گئی ہیں۔کسان اور چھوٹے زمیندار اس صورتحال سے بہت پریشان ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو فصلوں سے آمدن تو کیا ہونی ہے،الٹا سال بھر کی خوراک بھی حاصل ہونی مشکل نظر آتی ہے۔ محمد حکیم صاحب ایک کسان ہیں۔ ان کا تعلق تحصیل گوجر خان سے ہے۔ حکیم صاحب نے اپنی قابلِ کاشت زمین کے دس ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کی ہے۔پچھلے چار مہینوں کے بالکل خشک موسم کے سبب حکیم صاحب کی 50فیصد فصل تباہ ہو چکی ہے اور خطرہ ہے کہ آنے والے ہفتے دو ہفتوں میں بارانِ رحمت نہ ہوئی تو اس کی بچی کھچی فصل بھی بہت بری طرح متاثر ہو گی۔48سالہ جناب حکیم نے کہا کہ میں نے اپنی ساری زندگی میں ایسی خشک سالی نہیں دیکھی۔یہ بھی پہلی دفعہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ گندم کی فصل سبز سے پیلی ہو گئی ہے اور آسمان سے بارش کا نزول نہیں ہوا۔ اب گندم کی فصل خشک ہونے کو ہے لیکن گندم کا پودا ایک فٹ، ڈیڑھ فٹ سے اوپر نہیں قد کر سکا۔گندم کا خوشہ بھی چھوٹا رہ گیا ہے اور اس میں دانہ بھی بہت کمزور ہے۔خدا خیر کرے جانوروں کے لیے بھوسہ بھی بہت کم ہوگا جس سے جانور خوراک کی کمی کی وجہ سے مر سکتے ہیں۔ دودھ دینے والے جانوروں کا دودھ کم ہو سکتا ہے۔ کسانوں اور کاشتکاروں کو کسی نے آنے والے خطرات سے آگاہ نہیں کیا اور نہ ہی مصیبت کی اس گھڑی کے لیے تیار کیا۔ تحصیل چکوال کے ایک اور کاشتکار جناب رشید حسین نے بھی ایسی ہی بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنی زمین کے 15ایکڑ گندم کاشت کے لیے مخصوص کیے لیکن فصل پتلی اور اس کا قد قدرے چھوٹا رہ گیا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ وہ اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بنجر زمین کے ایک زیریں حصے میں کھدائی کروا کے ایک چھوٹا سا ڈیم تعمیر کر لیا ہے جہاں سے بقدرے ضرورت فصل کو لگانے کے لیے پانی مل جاتا ہے۔ اس سال چونکہ بہت خشک سالی ہے اس لیے دوسرے کاشتکاروں کی نسبت ڈیم سے پانی مل جانے کی وجہ سے ان کی فصل قدرے بہتر ہے،لیکن بارش کا اپنا ہی اثر ہوتا ہے۔بارشیں اگر وقت پر ہو جائیں تو فصلوں پر نکھار آ جاتا ہے،گندم کے پودے کا قد بڑا ہوتا ہے اور خوشے میں دانے بڑے اور زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں۔اس کے مطابق حکومتِ پنجاب کو چاہیے کہ کاشتکاروں کو فنڈ دے کر اور فنی مہارت مہیا کر کے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنوائے تا کہ بارانی علاقوں میں بارشیں نہ ہونے سے فصلیں تباہ نہ ہوں اور خشک سالی سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔تلہ گنگ سے ملک خادم نواب نے کہا کہ یہ ایک غیر متوقع لمبی خشک سالی ہے۔ایسی خشک سالی پہلے نہیں دیکھی۔ انھوں نے کہا کہ ہم پاکستانیوں کو اﷲ سے توبہ کرنی چاہیے اور مساجد میں نمازِ استسقاء ادا کر کے بارانِ رحمت کی دعا کرنی چاہیے۔ پاکستان گندم کے قابلِ کاشت رقبے کے لحاظ سے دنیا میں 8ویں نمبر پر ہے لیکن گندم کی فی ایکٹر پیداوار کے لحاظ سے52 ویں نمبر پر آتا ہے جو بہت افسوس ناک ہے۔1999سے لے کر2011تک ہماری فی ایکڑ پیداوار کافی بڑھی لیکن اس کے بعد کم ہونی شروع ہو گئی۔ ہمارا زرعی شعبہ GDPکا تقریباً23 فیصد ہے جب کہ 39فیصد روزگار اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ہم کل24ملین ٹن گندم اگاتے ہیں اور ہماری سالانہ کھپت32ملین ٹن ہے، اسی لیے ہمیں ہر سال گندم در آمد کرنی پڑتی ہے۔پچھلے سال کسانوں کو گندم کی قیمت بہت کم ملی اس لیے موجودہ سیزن میں قدرے کم رقبے پر گندم کاشت کی گئی۔بارشوں کے نہ ہونے سے صورتحال گمبھیر ہوتی نظر آ رہی ہے۔ہر طرف دھول دھپا ہے ۔آنے والے دنوں میں گندم کی شدید کمی اور آٹے کی اونچی قیمتوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔کیا ہم اچھی منصوبہ بندی سے عوام کو آنے والی اس مشکل سے بچا سکتے ہیں۔
اگر آپ اس خبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
مزید تفصیل